سیاست میں اتفاق رائے کی علامت

114

مظفر اعجاز
ہمارا پروفیسر غفور احمد صاحب سے واسطہ اور تعارف بھی 1977ء ہی کا ہے جب پاکستان قومی اتحاد قائم تھا اور پورے ملک کے طول وعرض میں ان کی مصروفیات تھیں۔ ان ہی دنوں میں کراچی کے مختلف علاقوں میں ان کے جلسوں میں ان کا خطاب سننے کا موقع ملا… مختصر، بامقصد اور صرف کام کی باتیں… ان کے جلسوں میں لوگ ان کی دس پندرہ منٹ کی تقریر سننے کے لیے گھنٹوں بیٹھا کرتے تھے۔ پی ای سی ایچ ایس میں بھی ہم نے بہت توجہ سے ان کی گفتگو سنی… جب 80 کے عشرے کے اوائل میں ہم صحافت سے وابستہ ہوئے تو غفور صاحب سے مزید رابطوں کا موقع ملا۔
صحافت میں ہم نے دیکھا کہ لیڈر اسٹیج پر آتا ہے اور مائک سے چپک جاتا ہے، پروفیسر صاحب اس کے برعکس تھے ان کے پاس الفاظ کی لڑی ہوتی تھی ایک تسلسل سے بولتے چلے جاتے۔ کام کی باتیں کرتے ان کی خبر نوٹ کرنا سب سے آسان ہوتا تھا۔ کیونکہ اس میں کوئی غیر ضروری جملہ نہیں ہوتا تھا، صرف ابتدا میں ڈیٹ لائن اور ان کا منصب لکھنا پڑتا تھا اس کے بعد ایک دو جگہ انہوں نے کہا اور پروفیسر غفور نے مزید کہا یا مطالبہ کیا یا پھر متنبہ کیا… جیسی خبر ویسا لفظ شامل ہو جاتا…
پروفیسر صاحب کے ساتھ سیاست میں وقت گزارنے والے سید منور حسن بتاتے ہیں کہ جب مختلف سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں اور مذاکرات ہوتے تھے تو پروفیسر صاحب بیک وقت دو تین پلان تیار کرتے جاتے تھے… آج کل کے رہنمائوں کی طرح نہیں کہ 40 دن بعد پلان بی اور 60 دن بعد پلان سی اور اس کے ناکام ہونے کے بعد پلان ٹائیں ٹائیں فش… پروفیسر صاحب کی خوبی یہ تھی کہ تینوں پلان میں سے کسی پر بھی بات کروائیں اپنا ہدف حاصل کرلیتے تھے۔ 73 کا دستور سب کے سامنے ہے۔ مولانا نورانی، حفیظ پیرزادہ، سردار مزاری، مفتی محمود سب ہی کی رائے تھی کہ اگر پروفیسر صاحب نہ ہوتے تو 73 کا دستور اتفاق رائے سے نہیں بنتا۔ گویا آج تک پاکستان میں اتفاق رائے کی علامت پروفیسر غفور ہی ہیں… آج ایسی شخصیت کو قوم ترس رہی ہے ۔ سب سیاست کو قید سے نجات دلانا چاہتے ہیں ، لیکن غفور صاحب نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان کے دستوری محسن بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کو لوگوں کے نام یاد رہتے تھے کسی بڑے لیڈر کی بات نہیں مختلف محلوں میں لوگوں کو ان کا نام لے کر مخاطب کرتے اور انہیں یاد رہتا کہ فلاں جگہ کون صاحب رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہمارے محلے میں درس قرآن کے لیے بلایا گیا۔ مسجد سے ہم ان کو لے کر درس قرآن کے مقام کی طرف چلے۔ تھوڑا آگے گئے ہوں گے کہنے لگے اچھا آج ماجد صدیقی صاحب کے گھر درس رکھا ہے۔وہاں پہنچ پر پوچھنے لگے ، برنی صاحب نہیں آئے۔ وہ بھی تھوڑی دیر میں آ گئے ۔ پروفیسر صاحب جب درس قرآن دیتے تو قرآن کی بات کرتے اور سیاست پر بات کرتے تو قرآن سے حوالے دیتے… نڈر اس قدر کہ جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز دونوں کو دوٹوک جواب دیا کرتے تھے۔ شدید اختلاف کے باوجود شائستگی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا… شاید یہ باتیں بہت سے لوگ بار بار لکھ چکے ہوں لیکن ہمارا جو تاثر ہے ہم اسے بھی قارئین کے لیے تحریر کررہے ہیں۔
قومی سیاست پاکستان کی تاریخ وغیرہ کے حوالے ان کا وژن صاف اور ذہن پروقت حاضر رہتا تھا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے والے ’’ماہرین‘‘ بار بار قائداعظم کی تقریر کا ایک حصہ پڑھ کر سنا رہے تھے… کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جس میں ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی یہ تھیا کریٹک ریاست (یا پاپائیت پر مبنی) نہیں ہوگی جس کا ترجمہ یہ ماہرین ملائیت کررہے تھے۔ تو پروفیسر صاحب نے کہا کہ اس کے آگے بھی پڑھیں جو قائداعظم نے کہا کہ یہ پاپائیت پر مبنی ریاست نہیں ہوگی جیسی کہ برطانیہ میں قائم تھی… اس کے بعد حسب معمول اینکرز کو وقفہ سوجھ گیا… ان کی سادگی، کا ذکر کیا کریں سارا جہاں گواہ ہے۔ ان کے ایک صاحبزدے نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ غفور صاحب جب اسلام آباد یا سفر پر کہیں جاتے تو ایک رومال میں ضرورت کے چند روپے لے جاتے وہ اس کے علاوہ فاضل رقم لے کر نہیں نکلتے تھے۔ جب 73 کے آئین کے حوالے سے اسمبلی کے اجلاس اور اسلام آباد میں قیام طویل ہوگیا تو ایک روز سوچ رہے تھے کہ صبح ناشتے کا کیا بنے گا کہ اتنے میں مولانا نورانی آگئے اور کہا کہ کچھ مشورہ کرنا ہے… غفور صاحب نے کہا کہ اس کی فیس ہوگی۔ مولانا نورانی نے وعدہ کیا کہ فیس دوں گا… پھر دونوں رات دیر تک بیٹھ کر مشورہ کرتے رہے۔ چلتے ہوئے مولانا نورانی نے سو روپے کا نوٹ ان کی جیب میں زبردستی ٹھونس دیا اور کہا یہ لو فیس۔ غفور صاحب نے صاحبزادے کو بتایا کہ اس نوٹ نے مزید دو دن ناشتے کا انتظام کرا دیا… پریشانی سے بچ گئے۔ وی آئی پی کلچر سے ناواقف، کارکن، کراچی کے امیر، مرکزی نائب امیر، وزیر، کچھ بھی ہوں ہر حال میں سادہ آسانی سے مل جانے والا کوئی پروٹوکول نہیں جب ہم ان کے پاس ثنا اللہ وولن ملز گئے تو سادہ سے کمرے میں بیٹھے تھے خود دروازے تک آئے۔ گھر میں بھی خود ہی دروازہ کھولتے۔ایسے لیڈر جماعت اسلامی کے سوا کہیں نہیں ملتے…