عائشہ انور
ع،ش،ق! یہ صرف تین حروف تو نہیں. کبھی غور کیا ہے، یہ تین حروف مل کر ایک ایسا سمندر بناتے ہیںجو ایک انسان کی زندگی میں پل پل مؤجزن رہتا ہے بشرط یہ کہ وہ ایک زندہ روح ہو، صرف ایک جسم نہیں۔ یہ تین حروف تو زندگی کی بنیاد ہیں، زندگی کے ستون ہیں۔ بچے کی پیدائش وقت اور ماں کا تکلیف میں بھی مسکرانا ان تین حروف کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ انسان کی ابتدا ہی ان تین حروف سے ہوتی ہے۔ اور ایک ماں تو اس سے عشق کرتی، تو اس کی تو بنیاد ہی عشق پہ اٹھی ہے!
ہیر اور رانجھے کو جو ہوا اور جس کی وجہ سے لیلیٰ مجنون ابدی نیند سوئے وہ بھی عشق ہی تھا لیکن وہ اس کا صرف ایک پہلو ہے، وہ عشق کی ایک جھلک تھی۔ تم نہیں جانتے یہ تین حروف کتنے طاقتور اور حیرت انگیز ہیں۔ کسی شاعر کو دیکھا ہے، اسے لفظوں سے عشق ہوتا ہے۔ فلسفی خیالات کا عاشق ہوتا ہے۔ مصور رنگوں سے عشق میں مبتلا نظر آتا ہے۔ کسی سیاح کو دیکھا ہے؟ اسے ہواؤں سے عشق ہوتا ہے۔اور مجاہد کو نظرئيے سے عشق ہوتا ہے۔ انسان سراپا عشق ہی تو ہے۔
تتلی پھولوں سے عشق میں زندگی بسر کرتى ہے۔ پھول خوشبو سے عشق میں خوش ہوتا ہے۔ چاندنی اندھیرے سے عشق کرتے ہوئے پھیلتی ہے۔ کبھی ستاروں کو دیکھا ہے؟ انہیں شاید اپنی جگمگاہٹ سے ہی عشق ہوتا ہو ۰ سمندر کو اپنی موجوں سے عشق اسے گہرا کرديتى ہے اور موجيں ساحل کے عشق میں مچلتی ہيں غزل خواں اپنی آواز کے جادو سےعشق میں بہتا چلا جاتا ہے اور ایک سامع کو دھنوں سے عشقہوتا ہے۔ بادلوں کو شاید بوندوں سے عشق ہوتا ہو!
کیا تم نے دیکھا یہ عشق کتنا وسیع ہے! یہ عشق چار سو ہے، یہ تین حروف تو نہیں نا! یہ جینے کی وجوہ ہیں،یہ اجسام کی روح ہیں، یہ سوچوں کی دھڑکن ہیں اور زندگی کا حسن ہیں!!