وٹہ سٹہ

62

فرح ناز

وہ بڑی تیزی سے جیولرز کی دکان میں داخل ہوئی – مراد جیولرز ایک چھوٹی سی شاپ تھی آس پاس کے لوگ ہی آیا کرتے تھے وہ کبھی کبھی زیور رکھ کر قرضہ بھی دیا کرتا تھا اس کے علا نئے پرانے زیور کی خریدو فروخت بھی کرتا تھا اس سے اس کی دکان چلتی تھی “یہ لو بھائی ذرا وزن کردو “- خولہ نے پسینے میں بھیگا ایک رومال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جس میں سونے کی سادی سی بالیاں تھیں –
“ آپ بیچنا چاہتی ہیں یہ تو بہت ہلکی ہیں”- مراد نے پیشہ ورانہ نظروں سے دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا-
“آپ مجھے اسی وزن میں کو ئی لا کٹ دے سکتے ہیں “ خولہ نے امید بھرے لہجے میں کہا-
“ہوسکتا ہے لیکن کچھ پیسے اوپر سے دینے پڑیں گے”- مراد نے کہا-
“ ہاں ہاں ٹھیک ہے “۔
“ لیکن ابھی نہیں دو تین دن انتظار کریں کسی کا لاکٹ بکنے آیا تو آپ کو کال کر دنگا-“۔ فون نمبر لکھوا کر معاملات طے کر کے وہ تیزی سے دکن سے نکل گئی-
دو بچوں کی اکٹھے شادی کرنا آسان کام نہیں آٹے سٹے کی شادی میں اور زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے- خولہ کسی معاملے میں خود کو کم تر نہیں رکھنا چاہتی تھی
مہندی جیسی فضول رسم جتنی زیادہ دھوم دھڑکے سےہو اتنا ہی اچھا ہےچاہے آپ کو قرض لینا پڑےاسی سے آپ کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے-
دونوں سمدھنیں ایک دوسرے کو برادری کے سامنےتحائف کا تبادلہ کیا تحفے دینے سے محبتیں جو بڑھتی ہیں- دونوں نے جیولری کے چھوٹی سی مخملی ڈبیہ کھولی اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا خولہ کے پاس چمکتی ہوئی سونے کی بالیاں دوبارہ پہنچ گئیں تھیں اور اس کی سمدھن اپنی ماں دیا ہوا لاکٹ ہاتھ میں لئے سوچ رہی تھی اس لین دین میں فا ئدہ صرف مراد جیولرز کا ہوا ہےا-