بھارتی عدلیہ کی دو رَنگی

97

سمیع اللہ ملک

بابری مسجد کے فیصلے کے بعد بھارتی عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکومتی زیادتیوں کونظراندازکرنے کی پالیسی کوبخوبی سمجھاجاسکتا ہے لیکن اب بھی سیکولرتجزیہ نگارواویلاکررہے ہیں کہ اگرعدلیہ نے فیصلوں کوغیرمعمولی تاخیرسے دوچاررکھاتونہ صرف وہ کسی بھی پیچیدہ یامتنازع معاملے پررولنگ دینے کی پوزیشن سے قاصررہیں گی بلکہ مستقبل کامورخ بھی ہندو سفاکی میں ان کوشریک کارلکھے گا۔
5 اگست 2019ء کو مودی نے نہایت دیدہ دلیری سے سات عشروں سے برقرارقانونی نظیرختم کرتے ہوئے جموں وکشمیرکو خصوصی حیثیت سے محروم کرکے اس کی نیم خودمختار حیثیت ختم کردی اور جموں وکشمیرکی قانون سازاسمبلی کوختم کرکے پورے خطے کودوحصوں میں تقسیم کردیااوردونوں کو مرکزکاعلاقہ قراردے دیا۔ اب جموں وکشمیر پر نئی دہلی کی قومی یامرکزی حکومت کابراہ راست تصرف ہے۔ اس اقدام نے بھارتی میڈیاکوتالیاں بجانے کی تحریک دی جبکہ جموں وکشمیر میں غیرمعمولی اشتعال پیداہوگیا۔ مودی کے اس اقدام سے آئین کے بارے میں الجھے ہوئے اورپریشان کن سوالوں نے بھی جنم لیا۔
یہ سوال کس کے لیے پریشان کن ہیں؟ مقبوضہ وادی کشمیرکے80لاکھ افرادیقینی طورپرشدید مضطرب ہیں۔ 5اگست سے وادی کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی عملاًمحاصرے میں ہے،جو8لاکھ بھارتی فوجیوں کے درمیان پس کررہ گئی ہے۔ دہشت گردی روکنے کے نام پرغیر انسانی نوعیت کے قوانین کے ذریعے بھارتی حکومت نے ہزاروں افراد کوکسی جرم میں نہیں بلکہ محض مظاہرے روکنے کے لیے گرفتار کررکھا ہے۔ وادی کشمیرکے اندر،باہراوراطراف نقل وحرکت انتہائی محدودکردی گئی ہے، فون اورانٹرنیٹ پرمکمل پابندی عائد ہے۔ اس کے جواب میں کشمیریوں نے اسکول،دکانیں اوربازاربندکرکے مکمل ہڑتال کی شکل میں اپنی پوزیشن مستحکم کررکھی ہے۔ دہلی میں رشتے داروں کے ہاں مقیم ایک کشمیرسول سرونٹ نے کہاکہ ماحول میں انتہائی گھٹن ہے،یہ سب کچھ بالکل ناقابل برداشت ہے۔نوجوانوں کی ذہنی کیفیت انتہائی منتشرہے اوروہ انتقام کے سواکچھ بھی نہیں سوچ رہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ کے لیے بہر حال یہ سب کچھ کسی بھی اعتبارسے پریشان کن نہیں۔ اگست کے آخر میں عدالت عظمیٰ نے مودی کے اقدام کی آئینی حیثیت کوچیلنج کرنے کے حوالے سے چنددرخواستوں پرغورکیاتوحکومت کوجواب دینے کے لیے ایک ماہ کاوقت دیا۔ یکم اکتوبرکوجب عدالت کے جج اس حوالے سے پھرمل بیٹھے توکوئی جواب پیش کرنے میں ناکامی پرحکومت کے وکلا کومعمولی سی بھی سرزنش نہیں کی۔اس کے بجائے انہوں نے خاصی فراخ دلی کامظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کومزیدوقت دے دیا۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر کوبھارت کاباضابطہ حصہ بنانے سے متعلق وضع کیاجانے والاجموں اینڈکشمیرری آرگنائزیشن ایکٹ31دسمبر کونافذہوجائے گاگویابھارتی عدلیہ کی ملی بھگت نے مودی کاکام آسان کردیاہے۔
کچھ اسی طورکی لاتعلقی یاعدم تشویش کے ساتھ بھارتی عدالت عظمیٰ کے ایک اور(بڑے)بینچ نے اُسی روز کشمیرمیں غیرقانونی گرفتاریوں،حراست اورمواصلاتی ذرائع کی بندش سے متعلق کیس کی سماعت ساتویں بارمعطل کی۔ عدالت نے حبس بے جا سے متعلق درخواستوں کو (جوقانون کے نظریات کی روشنی میں فوری سماعت کامعاملہ ہوتاہے( جموں وکشمیرہائی کورٹ کو واپس بھیجاہے جبکہ اسے یہ بات معلوم ہے کہ غیر قانونی حراست کے حوالے سے کم و بیش300مظاہرے ہوچکے ہیں اورمتعلقہ درخواستوں کی سماعت صرف دوججوں کے ذمے ہے۔ جموں وکشمیرہائی کورٹ میں ججوں کی کمیابی مایوس کن حدتک پہنچ چکی ہے۔ 17ججوں کی گنجایش ہے اورصرف8جج کام کررہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے جموں وکشمیرہائی کورٹ میں ججوں کے تقررکی منظوری کا معاملہ کئی ماہ سے اَٹکا رکھا ہے۔ جموں وکشمیرکے وکلابھی غیرقانونی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے لیے ہڑتال پر ہیں ۔
عوام کومعلومات تک رسائی کاحق دینے یاان کی پرائیویسی کے تحفظ کے حوالے سے بھارتی عدالت عظمیٰ کئی مواقع پرحکومت کے سامنے کھڑی ہوئی ہے۔ قانونی امورکے ماہرین کاکہناہے کہ حالیہ چندبرسوں کے دوران اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کا ریکارڈزیادہ متاثرکن نہیں رہا۔ قانونی امور کے حوالے سے لکھنے والے وکیل گوتم بھاٹیہ کہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے حال ہی میں حکومت کی طرف جس طرح کاجھکاؤدکھایاہے،اسے آئین سے چشم پوشی کانظریہ ہی کہاجائے گا۔ مودی سرکارکے خلاف رولنگ دینے کے بجائے عدالت عظمیٰ نے معاملات کو کئی بارغیرمعمولی تعطل کاشکاررکھاہے تاکہ وہ حکومت کے حق میں چلے جائیں۔ گزشتہ اپریل میں عدالت عظمیٰ نے انتخابات کے دوران ایک ایسے کیس کی سماعت سے صاف انکارکردیاجس میں سیاسی جماعتوں کوگمنام ومشتبہ طریقے سے لامحدودعطیات دینے کے لیے مودی سرکارکی طرف سے متعارف کرائے جانے والے الیکٹورل بونڈز کی قانونی حیثیت کوچیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ عذرتراشاکہ انتخابی نتائج سے قبل سماعت کے لیے وقت بالکل نہیں بچا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کیس ایک سال سے سپریم کورٹ کی یادداشت یا فہرست میں موجود تھا۔ قومی سطح کی بایومیٹرک شناختی اسکیم سے متعلق آدھارکیس میں عدالت عظمیٰ نے یہ کہنے کے لیے پانچ سال کاانتظارکیاکہ اسے اسکیل بیک کیا جائے۔ اس دوران ایک ارب افرادکی انرولمنٹ ہوئی۔ عدالت عظمیٰ کویہ رولنگ دینے میں دوسال لگے کہ مودی سرکارنے دہلی کی مقامی سیاست میں مداخلت کرکے اپنے اختیارات سے تجاوزکیاہے۔
اُدھردوسری طرف آسام میں کم و بیش19لاکھ افراد(جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے)کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگاہواہے۔ان کے حوالے سے کچھ سوچنے کے بجائے ریاستی حکومت حراستی مراکزقائم کرنے میں مصروف ہے۔مودی سرکاریہ جال اب پورے ملک میں پھیلاناچاہتی ہے۔گوتم بھاٹیہ لکھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ ریاست کے تین بنیادی ستونوں میں سے ہے مگر اس کے بجائے اب یہ منتظمہ(حکومت)کاحصہ دکھائی دے رہی ہے۔ بنیادی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے منتظمہ کی کارکردگی کاجائزہ لے کرخامیوں کی نشاندہی کرنے کی بجائے یہ اس کی سہولت کاربنی ہوئی ہے۔
عدلیہ کوجن درخواستوں کی سماعت کرنی ہے ان میں سے ایک میں جموں وکشمیرکے گورنرکوقانون سازاتھارٹی کی حیثیت سے کام کرنے کااختیاردینے میں مودی کاہاتھ ہونے کوچیلنج کیا گیا ہے۔ گورنرکے دفترکوقانون سازادارے کی حیثیت سے کام پرلگانے کا مقصدجموں وکشمیرکومرکزکے براہ راست تصرف میں آنے والے علاقے کی حیثیت دیناتھاجیساکہ قانونی تقاضا ہے۔ درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ جموں وکشمیرمیں انتخابات ہونے تھے۔ مرکزی حکومت نے عارضی صورت یابندوبست کوپورے علاقے (جموں و کشمیر) کی بنیادی، مستقل حیثیت تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیااوراس حوالے سے کشمیریوں سے ان کی رائے جاننے یامرضی معلوم کرنے کی زحمت بھی گوارانہیں کی گئی۔ اس نوعیت کے کرتب عدالتوں سے ملی بھگت کے ذریعے ہی دکھائے جاسکتے ہیں۔