سال 2019 محکمہ ریلوے کے لیے حادثوں کا سال رہا ہے،

157

کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری)سال 2019 محکمہ ریلوے کے لیے حادثوں کا سال رہا ہے، جنوری سے دسمبر کے دوران 30 سے زائد چھوٹے بڑے ریلوے کے حادثات پیش آئے، جن میں 124سے زائد انسانی جانیں لقمہ اجل بنیں،کئی افراد کو معذوری کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ محکمے کو کروڑوں روپے کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے،دوسری طرف ریلوے حکام افسوس اور معذرت کے علاہ کچھ نہ کر سکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سال 2019 میں ریلوے حادثات نے مسافروں کو خوف میں مبتلا رکھا، سفر غیر محفوظ ہونے کے باعث ریلوے کے ذریعے سفر کرنے میں کمی پائی گئی ہے، ریلوے حکام حادثات پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہے ہیں،جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال محکمہ ریلوے کی لاپرواہی کے سبب سب سے بڑا حادثہ تیز گام ایکسپریس کو پیش آیا، یہ سانحہ اکتوبر میں ہوا جس میں 75 جانیں ضایع ہوئیں، دوسرا بڑا حادثہ اکبر ایکسپریس کو پیش آیا جس نے 23 جانوں کا چراغ گْل کیا، اس حادثے میں 100 افراد ذخمی ہوئے تھے۔اسی طرح رواں سال ریلوے پھاٹک نہ ہونے کے باعث بھی 26 لوگ پٹریوں پر زندگی کی بازی ہارے ہے، حسب روایت ریل گاڑیوں کا پٹریوں سے اترنا بھی معمول بنا رہا ہے،

اگر واقعات پر نظر ڈالیں تو 31 اکتوبر 2019 کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس میں ضلع رحیم یار خان کے قریب گیس سلینڈر پھٹنے سے کم از کم 75 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔بدقسمت ٹرین کو حادثہ صبح 6 بج کر 15 منٹ پر صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں چنی گوٹھ کے نزدیک چک نمبر 6 کے تانوری اسٹیشن پر پیش آیا تھا،

اس حادثے کی ابتدائی وجوہات کے بارے میں یہ کہا گیا کہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ رائے ونڈ جارہے تھے کہ اور ان کے پاس گیس سلینڈر موجود تھا، جس کے پھٹنے سے یہ واقعہ پیش آیا ہے،تاہم جہاں ایک طرف گیس سلنڈر پھٹنے کو واقعے کی وجہ قرار دیا گیا تو وہیں یہ بات مدنظر رہے کہ ریلوے حکام کے مطابق ٹرین میں سلنڈر لے جانے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی ہے۔اب اس معاملے کی تحقیقات کے بعد اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ کس کی غفلت کے باعث مسافر ٹرین میں سلنڈر لے کر سوار ہوئے تھے،

رحیم یار خان کے قریب ہونے والے اس حادثے سے قبل 11 جولائی کو پنجاب کے علاقے صادق آباد میں ایک ٹرین حادثہ پیش آیا تھا۔صادق آباد میں ولہار اسٹیشن پر اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی آپس میں ٹکرا گئیں تھیں، جس کے نتیجے میں 23 افراد جاں بحق اور 85 زخمی ہوگئے تھے۔اس حادثے کی بھی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا تھا اور اس وقت وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ ‘حادثہ بظاہر انسانی غفلت کا نتیجہ لگتا ہے، غفلت برتنے والوں کومعاف نہیں کریں گے،

قبل ازیں 20 جون 2019 کو حیدرآباد میں جناح ایکسپریس ٹریک پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکراگئی تھی۔ٹرین اور مال گاڑی کی اس ٹکر کے نتیجے میں ڈرائیور، اسسٹنٹ ڈرائیور اور گارڈ جاں بحق ہوگئے تھے،اس حادثے سے ایک ماہ قبل 17 مئی کو سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کے علاقے پڈعین کے قریب لاہور سے کراچی آنے والی مال گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا۔اگرچہ خوش قسمتی سے اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تاہم محکمے کو مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا جبکہ ٹرینوں کی آمد و رفت بھی متاثر ہوئی تھی،

مال بردار گاڑی پی کے اے 34 کی 13 بوگیاں پٹری سے اترنے سے محکمہ ریلوے کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا تھا،

واضح رہے کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی جانب سے اگست 2018 سے وفاقی وزیر ریلوے کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک ریلوے حادثات و واقعات میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں جبکہ ادارے کو کروڑوں روپے کا مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے،

ان واقعات میں کہیں انسانی غفلت تھی تو کہیں ٹرین خود حادثات کا شکار ہوئیں لیکن ان سب کے باوجود ایسے واقعات کے سدباب کے لیے عملی طور پر کوئی اقدامات نظر نہیں آئے ہیں۔