ـ27ویں چیف جسٹس گلزار احمد کو کن چیلنجز کا سامنا ہوگا؟

139

ریاض سہیل
نئے چیف جسٹس گلزار احمد نے جب وکالت کی دنیا میں قدم رکھا تو جنرل ضیاالحق کی حکومت تھی، جب وہ سندھ ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے تو جنرل پرویز مشرف اقتدار میں تھے اور اس وقت جب انہوں نے یہ منصب سنبھالا ہے تو موجودہ فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کی توسیع اور پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا کے فیصلے عدالت عظمیٰ کے سامنے ہوں گے۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس گلزار احمد سے عدالت عظمیٰ کے 27ویں چیف جسٹس کا حلف لے لیا ہے۔ جسٹس گلزار کی بطور چیف جسٹس مدت یکم فروری 2022 تک ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ دو فروری 1957 میں ایڈووکیٹ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلستان اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1986 میں ہائی کورٹ کے وکیل رجسٹر ہوئے اور دو برس بعد ہی ان کی عدالت عظمیٰ میں انرولمنٹ ہوگئی۔ جسٹس گلزار احمد سولِ کارپوریٹ شعبے کے وکیل رہے ہیں اور وہ کئی بین الاقوامی کمپنیوں اور بینکوں کے قانونی مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
معزولی سے عدالت عظمیٰ تک کا سفر: جسٹس گلزار احمد جب 2002 میں ہائی کورٹ کے جج بنے تو دو سال قبل ہی جنرل پرویز مشرف کے جاری کیے گئے عبوری آئینی حکم کے تحت عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹ کے اکثر جج صاحبان حلف اٹھا چکے تھے۔ صرف پانچ سال کے بعد یعنی 2007 میں انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب دوبارہ عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے کا حکم آیا تاہم وہ سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد کے ساتھ ان ججوں میں شامل رہے جنہوں نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد جب سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ ان ججوں میں شامل تھے جو دوسرے مرحلے میں بحال ہوئے۔ 2011 میں وہ عدالت عظمیٰ کے جج تعینات کیے گئے۔ اس وقت افتخار محمد چودھری چیف جسٹس تھے۔ صحافی اور تجزیہ نگار مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا کا حکم اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت پر نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے چیف جسٹس گلزار ہی کے پاس آنی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’یہ چیف جسٹس شپ پاکستان کے سیاسی اور سول ملٹری تعلقات کی تاریخ میں ایک بڑا اہم موڑ ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع اور پرویز مشرف کو پھانسی کا معاملہ بہت سنجیدہ معاملات ہیں جن کو آگے لے کر چلنا ہے اور آنے والا وقت مشکل ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلے دیے ہیں اور نتائج کی پروا کیے بغیر معاملات کو آگے لے کر جایا گیا ہے۔
پاناما کیس میں اختلافی نوٹ: جسٹس گلزار احمد پاناما لیکس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ’عوامی عہدیدار کی حیثیت سے یہ میاں محمد نواز شریف کی ذمے داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے بارے میں صحیح حقائق سے قوم اور اس عدالت کو آگاہ کرتے لیکن وہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے اس لیے وہ آئین کی شق 62 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے‘۔ اسی پاناما کیس سمیت میاں نواز شریف کے خاندان کے خلاف مختلف مقدمات میں اپیلیں ان کے ہی سامنے آنی ہیں۔
شہری اور عسکری اداروں پر برہمی: سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس ثاقب نثار کی طرح جسٹس گلزار احمد بھی میڈیا کی سرخیوں میں رہتے آئے ہیں اور اس کی وجہ ان کے کراچی اور اسلام آباد کے شہری معاملات پر ریمارکس ہیں۔ کراچی میں ایمپریس مارکیٹ، گارڈن مارکیٹ سمیت غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن ان کے ہی حکم پر جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے حکام کو مخاطب ہو کر کہا تھا ’جائیں شہر میں تمام وہ تجاوزات منہدم کریں جو چالیس برس قبل کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی میں تعمیر کی گئیں ہیں‘۔ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی پر ریمارکس دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا بس چلے تو پورے سمندر پر شہر بنا لیں، ڈی ایچ اے والے سمندر میں تجاوزات بنا کر کے امریکا تک اپنا جھنڈا لگا دیں، یہ سوچ رہے ہیں کہ انڈیا میں کیسے گھسیں‘۔ انہوں نے کراچی میں تمام عسکری زمینوں پر تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور ساتھ یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا نیوی، سول ایوی ایشن جیسے اداروں کا کام شادی ہال چلانا ہے؟ یہ شادی ہال اور سینما چلا رہے ہیں‘۔ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد کا حشر بگاڑ دیا گیا، یہ آدھا شہر اور آدھا دیہات بن گیا ہے‘۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ ’ایک ہلتی ہوئی میٹرو چل رہی ہے، یہاں کوئی رکشہ نہیں، رکشے لے کر آئیں اور لوگوں کو اپنی ثقافت دکھائیں۔
کراچی میں بارشوں میں ہلاکتوں کے خلاف درخواست کی سماعت پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے تھے ’کے الیکڑک ابراج گروپ کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے، یہ پانچ پیسے کے بدلے پانچ کروڑ کا منافع لیتے ہیں، کیا کبھی کسی نے اس ادارے کا آڈٹ کیا‘۔ ’میری نواسی گھر سے اسکول جاتی ہے تو واپسی تک میری اہلیہ پریشان رہتی ہیں، شہر میں بارش میں بجلی سے 22 بچوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں، ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ بچے ہلاک ہوئے ہوں‘۔
از خود نوٹس کا اختیار: عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ان کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے آرٹیکل 183(3) کے تحت حاصل اختیارات کے تحت کئی اہم سیاسی اور آئینی معاملات کا از خود نوٹس لیا۔ وکلا برداری اور سیاست دان کچھ نوٹسوں پر خفا بھی نظر آئے لیکن رخصت ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان اختیارات کا استعمال نہیں کیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی اور اس کے لیے ایک فنڈ قائم کیا، جسٹس گلزار احمد اس مہم کا حصہ رہے۔ تجزیہ نگار اور صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اتنا جوڈیشل ایکٹیوازم نہیں دکھایا۔ ’انہوں نے از خود نوٹس کے بارے میں قواعد بنانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جسٹس گلزار سمیت ان کے ساتھی جج اس چیز کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ جب ان کی باری آ رہی ہے تو ازخود نوٹس کے اختیارت کو کم کر دیا جائے‘۔ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کا خیال ہے کہ جسٹس گلزار از خود نوٹس کا استعمال کریں گے کیونکہ اس سے قبل وہ کراچی تجاوزات اور زمینوں پر قبضوں کے مقدمات میں ایسا کر چکے ہیں۔
ماڈل کورٹس کا مستقبل: عدالت عظمیٰ کے حال ہی میں رخصت ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمات کی سماعت میں اور فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے ضلعی سطح پر ماڈل کورٹس متعارف کرائے تھے۔ بعض سینئر وکلا اس کو آئین کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان وکلا میں یاسین آزاد بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق یہ عدالتیں آئینی تقاضے پورا نہیں کر رہی ہیں اور اب جسٹس گلزار اس نظام کو جاری رکھتے ہیں یا ختم کرتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔بار اور بینچ کا رشتہ: جسٹس گلزار احمد نے بار کی سیاست میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ وہ 1999 میں سندھ ہائی کورٹ بار کراچی کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے کراچی بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’بار اور بینچ کا ایک رشتہ ہے جو ہر وقت چلنا ہے اور اس کو نہ کوئی روکے گا اور نہ کوئی بگاڑ سکتا ہے۔ اگر اس میں بگاڑ آ گیا تو اس میں دونوں کا ہی نقصان ہے‘۔ وہ عدلیہ میں خواتین ججوں کی تعداد میں اضافے کے بھی خواہش مند ہیں۔ حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ سمیت تقریباً تین ہزار سے زائد جج ہیں اور دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ان میں خواتین ججوں کی تعداد تقریباً 500 ہے جو تشویش کا باعث ہے۔ ’ہم بطور ادارہ تجویز دیتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو پاکستان کی عدلیہ میں خواتین کی شمولیت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
بھاشا، دیامیر ڈیم: عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھاشا دیامیر ڈیم کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی اور اس کے لیے ایک فنڈ قائم کیا۔ جسٹس گلزار احمد اس مہم کا حصہ رہے اور انھوں نے اسی دوران امریکا میں چندہ مہم میں شرکت کی تھی۔ وہ اس ڈیم کی تعمیر کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیتے رہے ہیں۔ نیشنل بینک نے جب ڈیم فنڈ کی 12 ارب روپے کی رقم سے سرمایہ کاری کی تو انہوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ وہ ان ’رکاوٹوں‘ کو دور کرے جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ڈیم فنڈ میں عطیات منتقل کرنے سے روک رہی ہیں۔