کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ اور منصوبہ ساز

901

کراچی میں (29 جون2020ء) اسٹاک ایکسچینج پر کالعدم بلوچ مسلح تنظیم کے چار نوجوانوں کا حملہ اگر چہ ناکام بنادیا گیا ہے۔ یقینا یہ افراد بڑی تباہی کی نیت سے آئے تھے۔ تاہم حملہ مقصد ونوعیت کے لحاظ سے سنگین ہی ہے۔ اس اسٹرٹیجی کے تحت کراچی میں قائم چین کے قونصل خانے پر نومبر 2018ء میں حملہ ہوا۔ مئی 2019ء میں گوادر میں’’کوہ باطل‘‘ پر واقع پی سی ہوٹل میں تنظیم کے جنگجو گھس گئے تھے۔ گویا ان تینوں واقعات کی منصوبہ بندی، اہداف اور مقاصد یکساں ہیں۔ تینوں واقعات بلوچ لبریشن آرمی نے تسلیم کیے ہیں۔ حالیہ کارروائی میں مرنے والوں کی شناخت بھی ظاہر کردی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سلمان حمل عرف نوتک، بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے مند، تسلیم بلوچ عرف مسلم تربت کے دشت، سراج کنگر عرف یاگی تربت کے مقام شاپک کے رہائشی تھے۔ چو تھا نوجوان شہزاد بلوچ المعرو ف کوبرا کا ضلع پنجگور کے علاقے پروم سے تعلق تھا۔ یہ سب تنظیم کے فدائی یونٹ ’’مجید بریگیڈ‘‘ کے ارکان تھے۔ بی ایل اے کا یہ دھڑا اسلم اچھو کی سربراہی میں حیربیار مری کے بی ایل اے سے الگ ہوا تھا۔ ایک وجہ یہ تھی کہ مری خاندان سے فکری نظریاتی قربت اور عقیدت رکھنے والے اسلم اچھو مارچ 2016ء میں سبی کے قریب سنگان کے پہاڑوں میں سیکورٹی فورسز کے ایک بڑے آپریشن میں زخمی ہوگیا تھا۔ اس کی موجودگی کی اطلاع بی ایل اے ہی کے ایک کمانڈر ’’بزرگ مری‘‘ نے ساز باز کے تحت دی تھی۔ فوری طور بلوچستان حکومت نے اسلم اچھوکی ہلاکت کا اعلان کردیا۔ مگر اسلم اچھو شدید زخمی حالت میں افغانستان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہاں سے مزید علاج کے لیے نئی دہلی کے ایک اسپتال پہنچایا گیا۔ صحت یابی کے بعد اس نے حیربیار مری سے راہ جدا کرلی۔ بزرگ مری نے بعد کے دنوں میں حکومت کے سامنے ہتھیار رکھ دیے۔ سرکاری مراعات وصول کیں۔ بی ایل اے نے بزرگ مری کو نومبر 2019ء میں کوئٹہ کے کلی شابو میں بھائی سمیت قتل کردیا، ذمے داری بھی قبول کرلی۔
بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان کے اندر ستر کی دہائی میں معروف ہوئی، مسلح کارروائیاں شروع کیں۔ یہاں تک کہ مجید نامی شخص نے کوئٹہ کے ہاکی چوکی پر اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم حملے کی کوشش کی۔ جس کی زد میں وہ خود آکر ہلاک ہوا۔ اس زمانے میں عبدالولی خان کی سوچ کے تحت ’’پشتون زلمئی‘‘ کے نام سے مسلح تحریک بھی اٹھی تھی۔ ان جنگجوئوں کی تربیت افغانستان میں ہوتی تھی۔ افغانستان کے حکمراں ظاہر شاہ اور سردار دائود بھارت اور پاکستان کے پشتون قوم پرستوں نے فریب میں ڈال کر استعمال کیا۔ جنہوں نے پشتونستان اورآزاد بلوچستان کے نعروں کو حکومتی پالیسی کا حصہ بناکر حمایت وعملی تعاون کیا۔ یہ سارا تخریبی و سازشی نقشہ بھارت کا تیار کردہ تھا۔ افغان حکومتوں کے ذریعے ان کی تمام ضروریات پوری کی جاتیں۔ نواب مری، سردار عطاء اللہ کے بھائی اور کئی بلوچ رہنماء کابل میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اجمل خٹک، افرا سیاب خٹک وغیرہ، سندھ اور پنجاب کے لیفٹ سے تعلق رکھنے والے بھی کابل میں جلا وطن ہوگئے تھے۔ مقاصد یہ تھے کہ پشتونستان کے نام سے الگ ملک، آزاد بلوچستان اور سندھو دیش بنایا جائے اور ایک طبقہ کمیونسٹوں کا تھا جو پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب یا بغاوت کی سازشوں میں لگے تھے۔ افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف افغان جہاد کے شروع ہونے کے بعد یہ ساری خواہشات دم توڑ گئیں۔ بی ایل اے البتہ ایک دبی چنگاری تھی، جس کی قیادت نواب خیر بخش مری مرحوم کے خاندان کے ہاتھ میں تھی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے انہدام کے بعد نواب مری فیملی اور مری قبیلہ کے جلاوطن خاندان پاکستان کے تعاون سے لوٹ آئے۔ نواب مری فیملی کے آنے کے بعد نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی صوبے میں اکا دکا واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ نواب مری کے فرزندوں نے انتخابات میں حصہ لیا، کامیاب ہوئے، وزارتیں حاصل کیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں، خصوصاً افغانستان پر امریکی اور ناٹو افواج کے حملے کے بعد بھارت کابل میں کرتا دھرتا بنا تو بلوچستان میں باغیانہ سوچ کو تقویت ملی۔ صوبے کے اندر شورش کے آثار واضح ہونا شروع ہوئے۔ نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نوابزادہ بالاچ مری در پردہ بلوچ لبریشن آرمی کو پھر سے فعال و منظم کرتے رہے۔ حالانکہ بالاچ مری 2002ء کی بلوچستان اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ جو اسمبلی کے فقط حلف برداری کے اجلاس ہی میں شریک ہوئے تھے۔ کچھہ عرصہ بعد پہاڑوں پر چلے گئے۔ یوں مسلح کارروائیاں شروع ہوئیں۔
26اگست 2006ء کو نواب اکبر خان بگٹی کی موت کے واقعے سے اس سوچ کو مزید مہمیز ملا۔ رفتہ رفتہ کئی دیگر مسلح تنظیمیں بنیں۔ متوسط بلوچ گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اللہ نذر نے بلوچ لبریشن فرنٹ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھ لی۔ سردار اختر مینگل کے بھائی میر جاوید مینگل نے لشکر بلوچستان کے نام سے مسلح گروہ تشکیل دیا۔ نواب بگٹی کے پوتے نوابزادہ براہمداغ بگٹی نے بلوچ ری پبلکن آرمی کے نام سے مسلح تنظیم بنالی۔ بالاچ مری کے افغانستان میں انتقال کے بعد نواب مری کے صاحبزادوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے۔ حیربیار مری نے بی ایل اے کی قیادت سنبھال لی۔ زامران مری نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے نام سے الگ کارروائیاں شروع کرائیں۔ نواب مری کا خود سا ختہ جلا وطن بیٹا گزین مری البتہ بلوچستان لوٹ آیا، عدالتوں کا سامنا کیا۔ واشنگٹن نے دو جولائی 2020ء کو بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد تنظیم‘ قرار د یا۔ گویا ان گروہوں نے صوبے میں تباہی مچا رکھیں۔ انہیں قوم پرست سیاسی حلقوںکی حمایت حاصل تھی۔ وکلا، ڈاکٹروں، طلبہ، اساتذہ، ادیبوں، صحافیوں اور بیورو کریسی وغیرہ میں اس سوچ نے سرائیت کرلی۔ افغانستان ان کی پناہ گاہ، تربیت گاہ اور مالی اور اسلحہ کی کمک کا مرکز بن گیا۔ صوبے کا غالب حصہ شورش کی زد میں آگیا۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد موت کے گھاٹ اُتارے جانے لگے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین خواہ ان کا تعلق تعلیمی اداروں سے ہو، اسپتالوں سے ہو۔ پولیس، لیویز، ایف سی اور فوجی اہلکاروں کو بالخصوص نشانے پر لیا۔ صحافیوں کی جان لی، سیاسی و قبائلی لوگوں پر حملے ہوئے۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج، جسٹس نواز مری قتل ہوئے۔ کوئٹہ میں صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کا گھر کے سامنے ہدفی قتل ہوا۔ نواب ثناء اللہ زہری کے بیٹے سمیت خاندان کے افراد کو بم حملے میں قتل کیا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر صفدر کیانی اور شعبہ ابلاغات کی خاتون پروفیسر ناظمہ طالب، لائبریری سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر خورشید انصاری سمیت کئی پروفیسر اور دوسرے اساتذہ قتل ہوئے۔ نشانہ بننے کے خوف سے جامعہ بلوچستان اور دیگر تعلیمی اداروں کے غیر مقامی اساتذہ سمیت کئی دیگر شعبوں کے ماہرین صوبہ چھوڑ کر چلے گئے۔ سرکاری تنصیبات کو تباہ کیا جاتا، بجلی کی مین ٹرانسمیشن لائنیں، گیس پائپ لائنیں اڑائی جاتی ہیں، ریلوے ٹریک اور ریل گاڑیوں پر بھاری اسلحہ سے حملے ہوتے۔ قومی شاہراہوں پر بسیں روک کر مقامی و غیر مقامی افراد کو اتار کر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد قتل کردیا جاتا۔ لوگ اغواء ہوتے بدلے میں تاوان طلب کیا جاتا۔ سرمایہ داروں اور تاجروں سے بھتے لیے جاتے۔ تعمیراتی منصوبوں کو خاص طور پر ہدف بنایا گیا، تعمیراتی کمپنیوں کے ماہرین اور مزدور مارے جاتے۔ حتیٰ کہ آغاز میں صنعتی شہر حب اور گوادر میں چینی انجینئرز قتل ہوئے۔
غیر قانونی طور پر ایران جاتے ہوئے دوسرے صوبے کے نوجوانوں اور افغان باشندوں کو بسوں سے اُتار کر بے دردی سے قتل کیا۔ کالعدم مذہبی تنظیموں نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھایا، صوبے کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئیں۔ عدلیہ، پولیس اور لیویز کا پورا نظام ان کے سامنے بے بس ہوگیا۔ آرمی، آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ہاتھ ڈالاتو رفتہ رفتہ یہ تنظیمیں پیچھے ہٹتی گئیں۔ نتیجتاً حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ یقینا اس وقت بلوچستان میں ان تنظیموں کی عملیات پہلے جیسی نہ رہی ہیں۔ البتہ وقتاً فوقتاً کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد گرفتار ہوتے ہیں تو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ان کی اپنی بنائی ہوئی تنظیمیں جبری گمشدگیوں کا شور بلند کردیتی ہیں۔ ایک عمومی مشاہدہ یہ بھی ہے کہ اکثر جنگجوئوں کی گمشدگی کی ابتدائی رپورٹ متعلقہ تھانوں میں درج کرائی جاتی ہے۔ جب کسی آپریشن کے نتیجے میں گرفتاری ہوتی ہے یا لاپتا کردیا جاتا ہے تو ان تنظیموں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلاں بے گناہ ہے جس کی گمشدگی کی رپورٹ پہلے ہی تھانے میں درج کرائی جاچکی ہے۔ البتہ یہ تنظیمیں اپنے لوگوں کا جھڑپ میں مارا جانا تسلیم بھی کرتی ہیں۔ اپنے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ بی ایل اے کا کمانڈر اسلم اچھو انتہائی مطلوب شخص تھا۔ اس نے فدائی حملوں کی اسٹرٹیجی اپنائی، سب سے پہلے اپنے نوجوان بیٹے کو منتخب کیا۔ جس نے اگست2018ء میں دالبندین میں چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ کیا۔ چینی قونصل خانے، گوادر میں پی سی ہوٹل جیسے واقعات نے چین اور پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا۔ یہ کمانڈر دسمبر 2019ء میں قندھار میں بم دھماکے میں چند دوسرے بلوچ کمانڈروں کے ساتھ جان سے گیا۔ اس بات میں شک نہیں کہ ان تنظیموں جن میں اب پی ٹی ایم کا اضافہ کرایا جا چکا ہے کی پوری کمک افغانستان سے حاصل ہورہی ہے اور راہ نما بھارت ہی ہے۔ ان تنظیموں اور بنگلا دیش کی عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی سیاسی پروپیگنڈے، جنگی اصول و طریقہ کار اور ابلاغ میں گہری مماثلت ہے۔