حزب اختلاف کا احتجاج، پریشانی کیوں؟

200

صوبہ بلوچستان، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا اہم یونٹ ہے۔ اتحاد میں شامل جمعیت علماء اسلام، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی صوبے کے عوام میں رسوخ اور اثرات رکھتی ہیں۔ اس بناء حکومت و اسٹیبلشمنٹ مخالف احتجاج میں بلوچستان نمایاں ہوگا۔ جنہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سے متعلق تحفظات ہیں۔ ان دو بڑی جماعتوں نے یقینا جمعیت علماء اسلام، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کو مایوس کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا آزادی مارچ بے سود بنانے میں ان مصلحتانہ سیاست کا دخل ہے۔ پیپلز پارٹی کے گناہ کچھ زیادہ ہیں۔ جو بلوچستان میں مخلوط حکومت گرانے، سینٹ الیکشن کی خرید وفروخت اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں حزب اختلاف کو ہرانے میں شامل تھی۔ بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک میں شریک ومددگار جمعیت علماء اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی تھیں۔ گویا ان جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی کو مکافات عمل کا سامنا بھی ہے۔ اپنی اس خطاء و گناہ کا انہیں احساس و ادراک ہونا چاہیے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور ان جماعتوں کو اپنے کیے پر معذرت و ندامت کرلینی چاہیے۔ جماعت اسلامی اتحاد کا حصہ نہیں ہے، جماعت اسلامی حکومت مخالف بیانیہ رکھتی ہے۔ مختلف ایشوز پر پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ حکومت کے خلاف احتجاج بھی کررہی ہے۔ تاہم اگر پی ڈی ایم کا حصہ بنتی تو حزب اختلاف کی قوت میں اضافہ ہوتا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پہلا جلسہ کوئٹہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ جس کے لیے گیارہ اکتوبر اور پھر اٹھارہ اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے اصرار پر اب 25اکتوبر کے دن پر اتفاق ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے پی ڈی ایم کے اجلاس کے اس مسئلے کو بھی اتحاد میں اختلاف ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالاں کہ اس معاملے کا تعلق مشاورت سے ہے کہ کون سا جلسہ کب اور کہاں منعقد ہونا ہے۔ کوئٹہ کا جلسہ یقینی طور بہت بڑا ہوگا۔ جس سے بلوچستان حکومت پریشانی میں مبتلا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں جلسہ بدامنی پھیلانے کے لیے منعقد کیا جارہا ہے۔ اور بلوچستان کو استعمال کیا جارہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی جام حکومت کا حصہ ہے۔ لہٰذا جام صاحب نے کہا ہے کہ اے این پی نے ماضی میں بھی اپنی مرکزی قیادت کو پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان حکومت کی اتحادی اور حکومت کا حصہ ہے۔ اور کابینہ بلوچستان کی ترقی کے لیے جو بھی منظوری دیتی ہے میں اے این پی کے اراکین شامل ہوتے ہیں۔ جام کمال کو اُمید ہے کہ اے این پی اس تناظر میں واضح مؤقف اپنائے گی۔ بہر حال فی الوقت اے این پی کی صوبائی جماعت پی ڈی ایم کے ساتھ ہے۔ کوئٹہ جلسہ یا یہاں حکومت مخالف احتجاج میں اے این پی کی سیاست کیا ہوگی یہ وقت پر موقوف ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ما ضی میں اے این پی کی صوبائی جماعت مرکزی نظم کے برعکس اپنی ترجیحات کے تحت فیصلے کر چکی ہے، اس پر اپنے مرکز کو بھی آمادہ کر چکی ہے۔ غرض حزب اختلاف کے جلسہ کے بارے میں بلوچستان حکومت نے بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے ایرے غیروں سے بھی پریس کانفرنس کرائیں۔ حکومت کے ترجمان نے تو یہ تک فرمایا ہے کہ جلسہ بری طرح ناکام ہوگا۔ بعض ان کے کہتے ہیں عوام حزب اختلاف کے ساتھ نہیں ہیں۔ چناں چہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر حکومت کو تذبذب اور پریشانی لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ نہ وفاقی حکومت کی جانب سے اظہار رائے پر کسی قسم کی پابندی ہونی چاہیے۔
ذرائع ابلاغ پر حزب اختلاف کے جلسوں کی کوریج پر قدغن سے میڈیا کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ہوگی۔ سیاسی مخالفین پر بغاوت اور ریاست مخالف رجحانات جیسے مقدمات لوگوں کے ذریعے درج کرانا انتہائی غیر شائستہ عمل ہے۔ مگربد قسمتی سے مسلم لیگ نواز کے پینتالیس سے زائد رہنماء جن میں دو سابق وزراء اعظم میاں محمد نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، سابق وفاقی وزراء، ریٹائرڈ جنرلز، سابق گورنر شامل ہیں۔ حتیٰ کہ آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم راجا فاروق حیدر کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا۔ خصوصاً وزیراعظم آزاد کشمیر پر مقدمے کی خبر بھارتی میڈیا نے خوب اُچھالی۔ یعنی اس عمل سے حکومت وریاست کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ ان احمقوں نے نواب جنگیز مری کا نام بھی شامل کیا ہے جس کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اس شخص کو حراست میں لیا جا ئے۔ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور ایس پی تک معطل کیے جا تے کہ جنہوں نے اس خباثت میں ساتھ دے کر قانون کو بے توقیر کیا ہے۔ میر حاصل خان بزنجو مرحوم نے جب ہارس ٹریڈنگ کے خلاف سینیٹ میں تقریر کی تو پنجاب کے مختلف تھانوں میں ان کے خلاف اس نوعیت کے مقدمے درج کرائے گئے۔ کسی کو سڑک حادثہ میں گھیر کر دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیے جاتے ہیں، تو کسی کی شہریت منسوخ کردی جاتی ہے۔ بلوچستان کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اشارہ ملنے پر سیاستدانوں کے خلاف تھانوں میں مقدمات درج کرالیتے ہیں۔ چناں چہ روڑے اٹکانے اور اوچھی حرکتوں سے سیاسی ماحول خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔