عوام کو سدھرنا ہوگا(سید اقبال چشتی)

97

جب اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم حافظ نعیم الرحمن تھے اور ان کے ساتھ سیکریٹری جمعیت کراچی میرے بھانجے محمود احمد تھے تو کسی مسئلے کے حل کے لیے ڈی آئی جی پولیس کے پاس جمعیت کا وفد محمود احمد کی قیادت میں ملاقات کرتا ہے۔ جب جمعیت کا وفد ڈی آئی جی کے کمرے میں داخل ہوا تو انھوں نے کھڑے ہوکر سب کا استقبال کیا۔ گفتگو شروع ہوئی تو سب سے پہلا جملہ پولیس افسر نے یہ کہا کہ اس مسئلے پر میں بھی آپ کے ساتھ ہوں اور میں بھی جماعت اسلامی کا سپورٹر ہوں، یہ دیکھیں میرے بک شیلف میں مولانا مودودیؒ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ بہرحال مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد متحدہ طلبہ محاذ کا وفد کسی مسئلے کے سلسلے میں ان ہی ڈی آئی جی سے ملاقات کرتا ہے۔ اس متحدہ طلبہ محاذ کے وفد کی قیادت پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کے صدر کررہے تھے اور سیکریٹری جمعیت کراچی بھی اس وفد میں شامل تھے۔ جب وفد پولیس افسر سے ملاقات کرتا ہے تو وہی پولیس افسر کہتے ہیں: میں تو بھٹو کا بہت بڑا فین ہوں، یہ دیکھیں میرے بک شیلف میں بھٹو کی کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی کی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے اور حکومتی مفاد کو اولیت دیتے ہیں، لیکن جب سب اپنے حق کے لیے ایک ہوجائیں تو مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا رویہ تو ہمیشہ سے ہی عوام کے ساتھ نامناسب رہا ہے، اور بیوروکریسی کے افسران کو تربیت ہی اس بات کی دی جاتی ہے کہ کس طرح اپنے مسائل لے کر آنے والوں کو چکنی چپڑی باتوں کے ذریعے رام کیا جائے اور یہ تاثر دیا جائے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں، لیکن یہ درحقیقت عوام کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے مفادات کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان افسران کو عوام کے مفاد سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جس طرح گزشتہ جمعہ کو ’کے۔ الیکٹرک‘ کے خلاف جب احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان ہوا تو اسی پولیس نے شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیا اور حافظ نعیم الرحمن سمیت دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا اور شارع فیصل پر لگایا گیا کیمپ اکھاڑ دیا۔ پھر وہی سب کچھ ہوا جو ہوا کرتا ہے، پولیس کی طرف سے احتجاج کرنے والوں پرآنسو گیس کی شیلنگ، فائرنگ، کارکنان کی گرفتاریاں اور پھر مذاکرات۔ حکومت کی طرف سے بھی یہی کہا گیا کہ ہم بھی ’کے۔ الیکٹرک‘ کی عوام دشمن پالیسیوں کے حوالے سے آپ کے ساتھ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً چار سال سے جماعت اسلامی کراچی ’کے۔ الیکٹرک‘ کی عوام دشمن پالیسیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہر اُس فورم پر گئی جہاں شکایات سنی جاسکتی تھیں یعنی نیپرا، عدالت، حکومت۔۔۔ لیکن کہیں بھی ’کے۔الیکٹرک‘ کی عوام دشمن پالیسیوں کو بریک نہیں لگایا گیا، بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا رویہ رکھا گیا۔ کہیں بھی شنوائی نہ ہونے اور ان اداروں کی طرف سے ’کے۔الیکٹرک‘ کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دیے جانے کے خلاف جب جماعت اسلامی کے کارکنان عوام کے حق کے لیے سڑکوں پر آئے تو حکومت بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ’کے۔الیکٹرک عوام کے ساتھ ظلم کررہی ہے۔
حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کے تقریباً اسّی فیصد عوام مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد سے لے کر کراچی تک تمام شہر اور ان شہروں میں بسنے والے عوام بنیادی سہولیات پانی، بجلی اور صفائی سے محروم ہیں۔ ان بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے سے عوام نہ صرف پریشان ہیں بلکہ نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوچکے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور حکومتی اداروں کے ستائے ہوئے عوام دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں اور اپنی بے بسی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو کسی جگہ پر کچھ لوگ جمع ہوکر احتجاج ریکارڈ کراکر گھروں پر واپس چلے جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پورے ملک میں ہر جگہ احتجاج ہورہا ہے اور ہر فرد حکمرانوں سے اپنا حق مانگ رہا ہے، اور حکمران اپنے نمائندے بھیج کر مسائل کے حل کی یقین دہانی کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے احتجاج کو ختم کردیتے ہیں، لیکن کسی کے بھی مسائل حل نہیں ہوتے، کیونکہ جب تک لوٹ مار اور کرپشن کرنے والے اقتدار میں بیٹھے ہیں عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کرپٹ حکمرانوں کا ایجنڈا ہی عوام کو اندھیرے میں رکھنا ہے۔ جس شہر کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا آج وہ اندھیروں کا شہر کہلاتا ہے۔ جہاں بنیادی مسائل نہ ہونے کے برابر تھے، اب وہاں مسائل ہی مسائل ہیں۔ وہ شہر جو محبتوں کا شہر کہلاتا تھا، عصبیت کی سیاست نے اسے نفرتوں کے شہر میں تبدیل کردیا ہے۔ نفرت کی اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے زیادہ اس شہر کو اپنوں ہی نے نقصان پہنچایا۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والوں نے تمام اختیارات حاصل ہونے کے بعد بھی اس شہر کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، کیونکہ ان لوگوں کو معلوم تھا کہ ہم مسائل حل کریں یا نہ کریں، ہمیں ہی جیتنا ہے کیوں کہ عوام بے وقوف ہیں۔ عصبیت کے ان پجاری سیاسی شعبدہ بازوں کو معلوم تھا کہ جب تک بیوقوف زندہ ہیں، عقلمند بھوکے نہیں مرسکتے۔ اسی لیے تیس سال گزرنے کے بعد بھی شہر کراچی اسی مقام پر کھڑا ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ بدتر حالت میں ہے۔ جگہ جگہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر حکمرانوں کا نہیں بلکہ عوام کا منہ چڑا رہے ہیں کہ دیکھو اس گندگی کے ڈھیر کو۔۔۔ میں ہوں تمہارا فیصلہ، میں ہوں تمہارے غلط ووٹ دینے کا رویہ، یہ تمہارا ہی کیا دھرا ہے، اب کیوں پریشان ہو۔۔۔! شہر کراچی کے مسائل کے اندر سے آنے والی یہ آوازیں اس شہر کے سب باسی سن رہے ہیں، کیونکہ ان کے دل کی مرادیں پوری نہیں ہوئیں۔ اس شہر کے لوگوں نے تیس سال تک ایم کیو ایم کو اپنے ووٹ اور نوٹ بھی دیے، لیکن وہ تمام لوگ عوام کو دھوکا دے کر اپنے اپنے مفادات کے پیچھے چلے گئے۔ جو لوگ کل تک نعرہ لگاتے تھے کہ ’’ہم نہ ہوں، ہمارے بعد۔۔۔‘‘ وہ تمام لوگ اپنی قیادت کو دھوکا دے کر، ایک بار پھر اپنی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر شہر کراچی پر قبضہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے والے عوام کی قسمت میں مسائل ہی مسائل لکھے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لیاری نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا لیکن لیاری جیسا برا حال کسی علاقے کا نہیں، بلکہ ان حکمرانوں نے پورے کراچی کو لیاری بنادیا ہے۔
دیگر شہروں کا حال بھی کراچی کی طرح ہے۔ لاہور سے دو دفعہ جیتنے والے موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کئی سال بعد جب الیکشن قریب ہیں تو اپنے حلقے میں تشریف لے گئے جہاں عوام نے گندے پانی کی بوتلوں کے ساتھ مظاہرہ کیا، اور ایک نے قریب جاکر سوال کیا کہ کیا آپ بھی یہی پانی پیتے ہیں؟ جس پر ایاز صادق خاموش رہے اور کھانے کے لیے اندر تشریف لے گئے کہ عوام کا کیا ہے، وہ ہر بار مظاہرہ اور احتجاج کریں گے لیکن ووٹ مجھے ہی دیں گے۔ ان حکمرانوں کے نزدیک صرف لاہور کی ترقی ہی ترقی کہلاتی ہے، لیکن اسپیکر کے حلقہ کے عوام نے ثابت کردیا کہ لاہور اب تک لندن اور پیرس نہیں بنا۔ باقی پنجاب کا تو اس بھی برا حال ہے۔ بجلی کی غیر اعلانیہ بندش اور طویل لوڈشیڈنگ کے حوالے سے حکمران جماعت کے وزیر کہتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ صرف بجلی چوری ہونے والے علاقوں میں کی جارہی ہے۔ یعنی وزیر عوام کو بجلی چور کہہ رہے ہیں اور اس لیے عوام کو سزا بھی دے رہے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک وزیر موصوف کہتے ہیں کہ پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے میڈیا گمراہ کن خبریں پھیلا رہا ہے۔ میڈیا تو ان حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کی خبریں بھی بتارہا ہے، کیا کرپشن کی یہ خبریں بھی پروپیگنڈا ہیں؟ حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ خود کرپٹ ہیں اس لیے ان سے کوئی ادارہ بھی کنٹرول نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ادارے شتر بے مہار کی طرح آزاد ہوچکے ہیں۔ ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔
’’کے۔الیکٹرک‘‘ ایک پرائیویٹ ادارہ ہے، لیکن یہ کسی کے سامنے تو جوابدہ ہے۔ مگر کل تک جو لوگ بھتہ خوری اور کرپشن کرکے لوٹ مار کیا کرتے تھے ان کی لوٹ مار کا ذریعہ اب ’کے۔الیکٹرک‘ بن چکا ہے، اور حافظ نعیم الرحمن کے بقول یہ ادارہ جعلی بلنگ کرکے عوام سے اربوں روپے لوٹ کر اپنے پالنے والوں اور خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھتے کی صورت میں رقم ادا کرتا ہے۔ کراچی کو تباہ کرنے والوں کے عزیز رشتہ دار لاکھوں روپے ماہانہ مشاہرے پر سیاسی رشوت کے طور پر ’کے۔الیکٹرک‘ میں ملازمت کررہے ہیں، جن کو الیکٹریکل اور الیکٹرونکس کی الف ب بھی نہیں آتی، اسی لیے سب ’کے۔الیکٹرک‘ کی بدمعاشی کے آگے گونگے، بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، کہ عوام ظلم کی چکی میں پستے ہیں تو پسیں، ہم تو مزے میں ہیں، اور بیوقوف عوام پھر ہمیں ایوانوں بھیجیں گے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ کرپشن کی روک تھام کرنے والا ادارہ نیب بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے۔ جس طرح اقوام متحدہ امریکا کی لونڈی بن چکی ہے، نیب بھی حکمرانوں کے اشارے پر ہی چلتا ہے۔ کرپشن کے شہنشاہوں کا چھوٹ جانا اس ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ محکمہ پولیس جو جرائم کی بیخ کنی کے لیے قائم کیا گیا ہے، وہ خود جرائم پیشہ افراد کا پشتی بان بن چکا ہے، اور اکثر جرائم پولیس کی سرپرستی میں ہی کیے جاتے ہیں۔ تالا توڑ گروپ پوری رات درجنوں دکانوں کے تالے توڑ کر، شٹر کاٹ کر قیمتی سامان اور نقدی نکال کر لے جاتے ہیں لیکن پولیس کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ جب تاجر حضرات صبح احتجاج کرتے ہیں تو پولیس فوراً پہنچ جاتی ہے اور بزور طاقت احتجاج ختم کرا دیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی طرح نادرا کا ادارہ بھی بے حس بنا ہوا ہے۔ عوام کی مشکلات حل کرنے کے بجائے عوام کو پریشان کرنا اور رشوت لے کر کام کرنا اس ادارے کا طرۂ امتیاز ہے، اور عوام کا فجر سے پہلے لائنوں میں لگ کر بھی شناختی کارڈ نہیں بنتا۔ اسی طرح لوگ پانی کے لیے ترس رہے ہیں اور گھریلو ضروریات کا پانی بھی اب ناپید ہوچکا ہے۔ جہاں پانی آرہا ہے وہ سیوریج ملا زہریلا پانی ہے اور حکمران ڈیموں میں پانی کی کمی کا رونا روکر عوام کو تسلی دیتے ہیں، لیکن ڈیم بنانے پر کوئی توجہ نہیں دیتا، بلکہ بھارت ڈیم بناکر پاکستان کے حصے کا پانی روک رہا ہے اور آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنارہا ہے، اس پر بھی حکمرانوں کی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کو عوام کی مشکلات کی نہیں بلکہ اپنی دوستی اور کاروبار کی فکر زیادہ ہے۔ اسی لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایوانوں میں بیٹھے کرپٹ لوگوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ کیونکہ ان کرپٹ عناصر کو عوام ہی اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں اور کئی بار کے آزمائے ہوئے لوگوں کو پھر سے آزمانا بیوقوفی ہی کے زمرے میں آتا ہے، اور عوام ہر بار ان کرپٹ عناصر کو منتخب کرکے خیر اور بھلائی کی توقع بھی رکھتے ہیں، لیکن کئی بار مسندِ حکمرانی پر آنے والوں نے اس قوم کو نہ تعلیم دی، نہ صحت، نہ روزگار، نہ بجلی، نہ پانی، اور نہ ہی گیس دی۔
وہ تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی جو ایک معاشرے میں رہنے کے لیے بے حد ضروری ہیں، وہ تک یہ حکمران نہ دے سکے تو لندن اور پیرس بنانے کے دعوے صرف جھوٹے ہیں۔ ان کرپٹ سیاست دانوں سے نجات کے لیے عوام ہی کو اُٹھنا ہوگا، ورنہ یہ حکمران ٹولہ عوام کے مسائل کی بات کرکے پھر سے یہی کہے گا کہ ہم ان مسائل کے حل کے لیے آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ حکمران جس طرح بک شیلف میں کتابیں بدل کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں بالکل اسی طرح باری باری حکمرانی کے منصب کی باریاں لگا کر پارٹیاں بدل کر بھی عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ لیکن اب بہت ہوچکا۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ جگہ جگہ احتجاج کرنے والوں کو متحد ہونا ہوگا۔ کرپشن اور لوٹ مار کرنے والی ان سیاسی پارٹیوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی، کیونکہ عوام کے اتحاد میں برکت ہے۔ 31 مارچ کو گرفتاری سے قبل حافظ نعیم الرحمن نے نعرہ لگایا تھا کہ ’کے۔الیکٹرک‘ کو سدھرنا ہوگا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ عوام کو ستانے والے تمام اداروں کو سدھارنے اور ان کے پشیبان حکمرانوں کے علاج کے لیے عوام کو سدھرنا ہوگا اور اپنے ووٹ دینے کے رویّے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر عوام اپنی طاقت کو جان لیں تو نہ صرف تمام مسائل بلکہ کرپشن کے شہنشاہوں سے بھی نجات مل جائے گی، مگر اس کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ عوام دیانت دار قیادت کا ساتھ دیں۔