نسل اور قوم پرستی(اوریا مقبول جان)

103

تعصب اور خصوصاً قوم پرستی کا تعصب ایک ایسا گھوڑا ہے جو نفرت کے میدان میں سرپٹ بھاگتا ہے۔ اس پر بیٹھا ہوا سوار عموماً یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ اس کے قابو میں ہے، لیکن یہ بدمست گھوڑا ہے جو اپنے سوار کو ہی پاؤں تلے روندتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں پر ان رہنماؤں نے ’’کھوپے‘‘ چڑھائے ہوتے ہیں۔ آنکھوں پر کھوپے چڑھائے نسل پرستی کی دوڑ میں جتے ہوئے اس گھوڑے کو تعصب کی لوریاں دے کر پالا جاتا ہے اور اس کے کانوں میں نفرت کے آوازے مسلسل دیے جاتے ہیں تاکہ یہ کسی اور طرف نہ دیکھ سکے اور نہ کوئی اور بات سن پائے۔
پاکستان کی پہلی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا وجود دنیا بھر میں رنگ، نسل اور زبان کی نفی سے پیدا ہوا تھا۔ ہمارے ’’عظیم‘‘ دانشور یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک پنجابی، بلوچ، سندھی، پختون اور بنگالیوں نے مل کر بنایا تھا۔ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوسکتا ہے! پنجابی نے اپنے پنجابی ہونے سے انکار کیا تھا، ورنہ اس کی نسل کے کروڑوں لوگ تو بھارت میں ہی رہ گئے، بلوچوں کی پاکستان جتنی آبادی ایران میں موجود تھی اور ہے، پختونوں کا تو پورا ملک افغانستان کی صورت موجود تھا۔ راجستھان کے علاقے میں سندھی آج بھی دریائے سندھ کی یاد میں نظمیں لکھتے ہیں، بنگالیوں نے کلکتہ اور مغربی بنگال کے بنگالی بھائیوں کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ نسلی تعصب سے انکار ہی تھا کہ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو مغربی بنگال کے ہندو بنگالیوں نے ’’ملیچھ‘‘ مسلمان بنگالیوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا تک گوارا نہ کیا۔
اس برصغیر میں اس وقت سب سے بڑی تفریق اور سب سے شدید نفرت مسلم بنگال اور ہندو بنگال کے درمیان ہے۔ کسی کو یقین نہیں تو بنگلہ دیش کی سرحد پر لگی خاردار تار پر لٹکی ہوئی ان بنگلہ دیشیوں کی لاشیں گن لے جو سرحد عبور کرکے اپنے ہم نسل اور ہم زبان بنگالیوں کے دیش جاکر رزق کمانا چاہتے تھے۔ ایک کروڑ بنگلہ دیشی مسلمان سرحد عبور کرکے بھارت گئے اور کلکتہ کے بنگالیوں نے ہی انھیں ڈنڈے مار کر بھگادیا۔
آج یہ بیچارے بنگلہ بھاشا، بنگلہ میگھا اور بنگلہ تہذیب کے ڈسے ہوئے مسلمان بنگالی کیرالہ جیسی دور دراز ریاستوں میں چند ہزار کی نوکریاں کرتے ہیں۔ البتہ بکنے والی بنگلہ دیشی مسلمان عورتوں کو کلکتہ میں رہنے دیا گیا، جن سے کلکتہ کا بازارِ حسن آباد ہے۔ ستّر فیصد طوائفیں مشرقی پاکستان سے لاکر یہاں بیچی گئیں۔ اغوا کرنے والے بھی بنگالی اور خریدنے والے بھی بنگالی۔
اگر پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچ قومیت اتنا جاندار نعرہ ہوتی تو 1947ء میں دس لاکھ پنجابی ایک دوسرے کا گلا نہ کاٹتے، ایک دوسرے کی بیٹیوں کو اغوا نہ کرتے، انھیں ہوس کا نشانہ نہ بناتے۔ بلوچ ایران میں اپنے خطے بلوچستان میں اجنبی نہ ہوتے، روز سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار نہ ہوتے۔
اگر بلوچ قومیت اس قدر طاقتور نعرہ ہوتی تو ایران کے بلوچ اس قدر ذلت و رسوائی میں زندگی نہ گزارتے کہ نہ حکومت میں، نہ پارلیمنٹ میں، اور نہ ہی سرکاری نوکری میں۔۔۔ کوئی تو ان کو ایک مشترک قوم کے نام پر اکٹھا کرتا۔ پاکستان کے پختونوں کا جو حال افغانستان میں ہوتا ہے، اس کے قصے طورخم سے رباط تک زبان زدِ عام ہیں۔
آپس کے تعصبات اور لڑائیوں کی ایسی خوفناک کہانیاں ہیں کہ الامان الاحفیظ۔ قبیلوں کے قبیلے اس کی نذر ہوچکے ہیں، کوئی سلمان خیل اور مندوخیل کو نہیں سمجھاتا کہ تم پختون ہو، کیا ہوا کہ ایک افغانستان میں زیادہ تر آباد ہے اور دوسرا پاکستان میں۔ یہی حال اُن سندھیوں کا ہے جو اگرچہ ہندو تھے لیکن بھارت پناہ لینے گئے۔ اندور کے شہر میں ان کی کسمپرسی کی داستانیں سن لیں۔ ارجن داس بگٹی سے لے کر گردھاری لال بھاٹیہ کے خاندان تک سب سندھی بولنے والوں کے ہاتھ زخم خوردہ ہیں۔ یہ تو ہندو ہیں، مسلمان سندھیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا!
پاکستان کی دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جس کسی نے اسلام کے سوا کسی دوسرے نظریے کی جدوجہد کی، جنگ لڑی وہ اسی تعصب، نسل پرستی اور قوم پرستی کے گھوڑے پر سوار ہوکر آیا۔ 1917ء میں روس میں کمیونسٹ بالشویک انقلاب آیا تو 17 ستمبر 1920ء کو سوویت یونین کی ریاست آذربائیجان کے شہر باکو میں ’’مشرقی قومیتوں کی کانگریس‘‘ (Congress of the People of the East) بلائی گئی، جس میں برصغیر پاک و ہند کی نسلی قومیتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ یہاں تک کہ بلوچ اور ہزارہ کا وفد بھی گیا جو بہت مختصر آبادی رکھتے تھے۔ کانگریس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کمیونسٹ نظام کی جنگ قومی عصبیت کے گھوڑے پر سوار ہوکر لڑی جائے گی۔
اس کانگریس کے بعد 17 اکتوبر 1920ء کو سوویت یونین کے شہر تاشقند میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی۔ پہلے برٹش انڈیا اور پھر پاکستان میں ایک تصور دیا گیا کہ کچھ قومیتیں ظالم اور کچھ مظلوم ہیں۔ 1971ء تک مغربی پاکستانی ایک قومیت بناکر پیش کی گئی اور بنگالی مظلوم۔ جب بنگلہ دیش بن گیا تو پھر پنجابیوں کو ظالم اور باقی تین قومیتوں کو مظلوم بناکر پیش کیا گیا۔
اُس زمانے کے تمام تعلیمی اداروں میں نسل پرست، قوم پرست اور کمیونسٹ انقلابی ایک پرچم تلے جمع ہوتے تھے۔ ان کا تعلیمی اداروں پر غلبہ تھا۔ چونکہ کمیونسٹ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور انقلاب کے قائل تھے، اس لیے سب سے پہلے انھوں نے اسلام اور مذہب کے نام پر آوازوں کو دبانے کے لیے تشدد کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں داڑھی اور حجاب ایک ناپید چیز تھی۔ جدیدیت کی علامت کمیونسٹ لٹریچر تھا جو اس ملک میں کلاسک اور دیگر اداروں کے علاوہ چین اور روس کے سفارت خانے فراہم کرتے تھے۔
اس تحریک کے دو اہم ستون تھے۔ ایک الحاد، اسلامی شعائر کی توہین اور قوم پرستی۔ ایسے میں منبر و محراب اور مسجد و مدرسہ کو اس خطرے کا ادراک تک نہ تھا۔ یہ تمام علماء انھیں عمومی سیاسی پارٹی سمجھتے ہوئے اپنے کام میں مگن تھے۔ ایسے میں اس خطے کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی علمی رہنمائی نصیب ہوئی۔ اگر ان کا علمی کام نہ ہوتا تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دروازوں پر الحاد، قوم پرستی اور کمیونزم کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔
اُس دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کا وجود ایک ایسی نعمت تھی کہ ایک نہیں بلکہ تین نسلیں ان نعروں کی گونج کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ ’’کمیونزم کا قبرستان۔۔۔ پاکستان پاکستان‘‘ کا نعرہ اس قدر سچ ثابت ہوا کہ سوویت یونین کی موت اسی پاکستان کے ہاتھوں ہوئی۔ کمیونزم تو لینن کا مجسمہ گرتے ہی اپنی موت مرگیا، لیکن نسلی اور علاقائی منافرت کے سرپٹ گھوڑے کو سوار کی ضرورت تھی۔
ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں جس طرح اس گھوڑے پر کمیونسٹ نسل پرست سواروں نے این ایس ایف، ڈی ایس ایف اور پی ایس ایف کے نام پر جو غنڈہ گردی کی اس پر موجودہ دور کا الحاد زدہ میڈیا کچھ نہیں لکھتا، اس لیے کہ اس نسل پرستی کے گھوڑے پر اب سیکولرازم اور لبرل ازم کے سوار آکر بیٹھ گئے ہیں جن کا مقصد بلوچ، پختون اور سندھی قوم پرستی بلکہ مہاجر اور سرائیکی قوم پرستی کے طوفان سے نکلتا ہے۔
جس قدر یہ طوفان برپا ہوگا اسی قدر اس مملکتِ خداداد پاکستان کا وجود خطرے میں پڑے گا۔ پاکستان سے نفرت ساٹھ سال کمیونسٹ اس لیے کرتے رہے کہ یہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی اساس انھیں بہت زچ کرتی تھی۔ کیسے کیسے نعرے بلند کرتے تھے کہ دیکھو مذہب کے نام پر مزدوروں اور کسانوں کو تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ سرمایہ دار کے خلاف متحد نہ ہوسکیں۔ اور اگر کوئی ان سے یہ سوال کرتا کہ بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی کے نام پر تم لوگ جو تقسیم کرتے ہو، اس میں بلوچ سردار، پختون خان اور سندھی وڈیرے بھی مظلوموں کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں، جب کہ کھیتوں، کارخانوں، بھٹوں، حجاموں، دھوبیوں، ترکھانوں کے ہاں کام کرنے والا مزدور اور کسان بھی ظالم ہے، کیونکہ وہ پنجابی ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا، بس اتنا کہتے: جب انقلاب آجائے گا تو سب ٹھیک کردیں گے۔
ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں بھی اگر آپ میڈیا کے لوگوں کو گنیں تو ان میں کمیونسٹ، نسل پرست، انقلابی زیادہ نظر آئیں گے، اور آج بھی سیکولر، لبرل، نسل پرست الحادی زیادہ نظر آئیں گے۔ اسی لیے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں ہونے والی بدمعاشی، غنڈہ گردی کی تاریخ کوئی بیان نہیں کرتا اور 1986ء کے بعد کراچی میں مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، 1977ء کے بعد سندھ میں پی ایس ایف اور سندھی اسٹوڈنٹس فیڈریشن، 1973ء کے بعد بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں قوم پرست طلبہ تنظیموں کے تشدد کی داستانیں کوئی رقم نہیں کرتا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھ میں ڈنڈا کتنے ڈنڈے کھانے کے بعد آیا، اس کی تاریخ جاننا بہت ضروری ہے۔
(جاری ہے)