کلیم چغتائی
کپڑے بہت قیمتی تھے!
ان میں دوپٹے تھے۔ جن پر عمدہ کام کیا گیا تھا۔ خوب صورت چادریں تھیں۔ ایک چادر تو بہت ہی حسین تھی۔
یہ تمام سامان اسلامی مملکت کے دارالخلافے میں مال غنیمت کے طور پر پہنچایا گیاتھا۔ یعنی یہ سامان کسی جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہونے پر ملا تھااور اسے اس جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں نے خود نہیں رکھ لیا تھا بلکہ دیانت داری سے دارالخلافہ بھیج دیا تھا تاکہ اسلامی حکومت شریعت کے مطابق اس سامان کو تقسیم کردے۔
اس وقت یہ قیمتی کپڑے اسلامی مملکت کے سربراہ کے سامنے پھیلے ہوئے تھے اور ایک خوش نما اور دلکش چادر ان سب میں نمایاں تھی۔
سربراہ مملکت کے قریب کچھ لوگ بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے مشورہ دیا :
’’امیر المومنین یہ چادر آپ اپنے بیٹے عبداللہ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کو دے دیں۔‘‘
سربراہ مملکت کچھ دیر سوچتے رہے۔پھر انہوں نے کہا :’’میں یہ چادر ان خاتون کو دوں گا جو میری بہو صفیہ بنت ابی عبید سے زیادہ اس کی حقدار ہیں۔یعنی ام عمارہ، بنتکعبؓ۔کیونکہ میں نے غزوئہ احد کے بعد رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے:’’میں نے جنگ میں جب بھی اپنے دائیں بائیں دیکھا نسیبہ بنت کعبؓ کو میرا دفاع کرتے ہوئے پایا۔وہ میری جان بچانے کے لیے لڑرہی تھیں۔‘‘
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہ چادر امِ عمارہ نسیبہ بنت کعبؓ کو بھجوادی۔
حضرت نسیبہ بنت کعبؓ وہ عظیم صحابیہ ہیں جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسلمان ہوئیں۔ اس وقت اسلام کا نام لینا مصیبتوں کو دعوت دینے کے برابر تھا اور کفار مسلمانوں کو سخت تکلیفیں دے رہے تھے۔ حضرت نسبیبہؓ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ رحمت ِدو عالم ؐ نے حضرت نسیبہؓ کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ ان کو جنت میں میرا رفیق بنادے۔
حضرت نسیبہؓ کا تعلق مدینہ منورہ کے قبیلے بنو نجار سے ہے۔ نبی کریمؐ کی پردادی کا تعلق بھی قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ حضورؐ اس قبیلے کو عزیز رکھتے تھے۔ایک بار آپ ؐ نے فرمایا:
’’اگر میں انصار کے کسی گھرانے میں شامل ہوتا تو بنو نجار میں شامل ہوتا۔‘‘(صحیح مسلم)۔
حضرت ام عمارہ ؓ کو اسلام قبول کرنے کی سعادت اس وقت حاصل ہوئی جب مکہ مکرمہ میں کفار کے مظالم حد سے زیادہ ہوچکے تھے۔ ان کی سختیوں اور مخالفت کی وجہ سے مسلمان بہت تکلیف میں تھے۔نبوت کے گیارہویں سال مدینہ منورہ سے 6 افراد حج کے لیے آئے تو منیٰ کے قریب عقبہ کے مقام پر ان کی ملاقات نبی کریم ؐ سے ہوئی۔ ان 6 افراد نے اسلام قبول کرلیا۔یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے۔ یعنی عقبہ کے مقام پر کیا جانے والا پہلا عہد۔ان 6افراد نے واپس مدینہ منورہ جاکر اسلام کی تبلیغ کی۔ذی الحجہ ۱۳ھ میں تہتر(73)افراد مدینہ منورہ سے آکر حضور اکرم ؐ سے ملے ۔ ان میں سے صرف 2خواتین تھیں جن میں سے ایک حضرت ام عمارہؓ تھیں۔
یہ ملاقات بہت احتیاط سے اور کفار کی نگاہوں سے چھپ کر کی گئی۔ حضرت کعبؓ بن مالک نے اس رات کا حال کچھ یوں بیان فرمایا:
’’ہم لوگ ایک تہائی رات تک سوئے رہے۔ پھر ہم اٹھے اور عقبہ میں اس مقام کی طرف چل پڑے جہاں ہمیں پہنچنا تھا۔ ہم 73افراد تھے۔ ان میں سے صرف 2خواتین تھیں۔ ایک امِ عمارہؓ (نسیبہ بنت کعب) اور دوسری اسماء بن عمر وؓ۔‘‘
جب ہم مقررہ جگہ پر پہنچے تو کچھ دیر بعد رسول اللہ ﷺ اپنے چچا عباسؓ کے ساتھ تشریف لے آئے۔ حضرت عباسؓ نے ایک تقریر فرمائی۔ پھر حضور ﷺ نے قرآن پاک کی تلاوت فرمائی۔ اسلام کی دعوت دی۔ پھر فرمایا:’’ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم لوگ میری اس طرح حفاظت کرو گے جس طرح تم اپنی عورتوں کے محافظ ہو‘‘۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے ان تمام افراد سے بیعت لی۔ سب نے عہد کیا کہ حضور ﷺ یثرب (مدینہ منورہ) تشریف لائیںگے تو ہم اپنی جان، مال اور اولاد کے ساتھ آپ ﷺ کی حمایت اور مدد کریںگے۔
تمام مرد حضور ﷺ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرچکے تو حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیاگیا کہ یہ 2خواتین بھی بیعت میں ہمارے ساتھ شریک ہیں۔ آپ ؐ ان سے بھی بیعت لے لیں۔ سرور دو جہاں ﷺ نے فرمایا: میں ان سے بھی ان شرائط پر بیعت لے چکا ہوں جن پر میں نے تم سے بیعت لی ہے۔ ہاں میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔
حضرت امِ عمارہؓ بہت بہادر خاتون تھیں۔ آپ ؓ نے کئی غزوات میں حصہ لیا۔ ’غزوہ’ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ ﷺ نے بھی شرکت فرمائی ہو۔ اس کی جمع غزوات ہے۔ غزوئہ احد میں حضرت ام عمارہؓ نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس جنگ میں چند مسلمانوں کی غلطی سے فائدہ اٹھا کر کفار نے مسلمانوں پر زبردست حملہ کردیا تھا۔ حضرت امِ عمارہؓ جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب ہی تھیں۔ آپ پیاسے مجاہدین کو پانی پلارہی تھیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کررہی تھیں۔ کوئی تیر تلوار یا نیزہ گرجاتا تو اٹھا کر مجاہدین کو تھما دیتی تھیں۔ حضرت امِ عمارہؓ نے اپنی بھانجی حضرت ام سعد بنت سعد کو خود اس جنگ کا حال اس طرح سنایا: