گاؤ کشی‘ فساد کا بہانہ

278

پرواز رحمانی
وہ اتوار یکم اکتوبر کی گہری شام تھی، گاؤں میں چاروں طرف سناٹا تھا۔ گاؤں کا ایک بارہ سالہ لڑکا قریب کے کھیت سے گزر رہا تھا کہ ایک جگہ اس نے دیکھا کہ دو افراد ایک مویشی ذبح کررہے ہیں۔ ذبح کیا جانے والا مویشی گائے تھی۔ لڑکا فوراً گاؤں پہنچا اور شور مچانے لگا۔ اس کی چیخ پکار سن کر گاؤں کے کچھ لوگ فی الفور موقع واردات پر پہنچے اور گائے ذبح کرنے والے ایک شخص کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ دوسرا بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ پولیس بھی موقع پر پہنچ گئی۔ گائے ذبح کرتے ہوئے پکڑا جانے والا شخص رام سیوک دیکشت ایک ہندو برہمن تھا۔ اس کا مفرور ساتھی منگل دیکشت بھی اُسی کی کاسٹ کا تھا۔ دونوں اُسی گاؤں بھات پورہ کے نواسی تھے۔ جس شخص کے گھر سے انہوں نے گائے چوری کی تھی وہ بھی برہمن گنیشن پرساد دیکشت تھا۔ بوقت واردات رام سیوک نشے میں تھا۔ مشرقی اُترپردیش میں گونڈہ ضلع کے کٹرا بازار تھانے کے گاؤں بھات پورہ کی یہ صورت حال دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتا تھا کہ واقعے کے پیچھے کیا مقصد تھا۔ لیکن پولیس کو قصہ سمجھنے میں کئی دن لگ گئے۔ انڈین ایکسپریس 5 اکتوبر کے مطابق پولیس اس پہلو سے اب غور کررہی ہے کہ واردات کا مقصد فرقہ وارانہ فساد کروانا تو نہیں تھا۔ واقعہ یوم عاشورہ سے ایک دن قبل پیش آیا تھا۔
رام سیوک دیکشت کی یہ ہسٹری خود مقامی پولیس نے بیان کی ہے کہ وہ ایک عادی مجرم ہے۔ اس کے خلاف اٹھارہ فوجداری مقدمات درج ہیں جن میں قتل اور ڈکیتی کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ اس کے مفرور ساتھی منگل دیکشت کا کردار بھی یہی ہے۔ یہ تو محض اتفاق کی بات ہے کہ اس کا جرم براہ راست پبلک کے علم اور آنکھوں میں آگیا، ورنہ آج کی سیاست اور آج کے ماحول میں حقیقت کا دبنا اور افسانوں کا فروغ پانا چنداں بعید نہ تھا۔ کہانی بالکل ایک دوسرا روپ لے لیتی اور جرائم پیشہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔ بھات گاؤں جہاں مسلمان بہت کم ہیں، تباہ ہوجاتا۔ اور اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا انوکھا واقعہ نہ ہوتا۔ آزاد ہندوستان کے فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ اس قبیل کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ شرپسندوں اور انہیں استعمال کرنے والوں کا یہ آزمودہ اور کامیاب حربہ ہے۔ جب اور جہاں چاہتے ہیں، اس قسم کی شرارت کرکے فساد برپا کردیتے ہیں۔ ان کے غیر قانونی ہتھیاروں کی فیکٹریاں بھی بعض اوقات پکڑی گئی ہیں، لیکن انجام کار ان کا کچھ نہیں بگڑا، کیوں کہ وہ سسٹم کی ملی بھگت سے یہ کام کرتے ہیں۔
دنگے فساد کے علاوہ ان حربوں سے دوسرے بڑے بڑے کام بھی لیے جاتے ہیں۔ بنارس کے سنکٹ موچن مندر کے گیٹ پر چند سال قبل ایک مہلک دھماکا ہوا۔ پولیس کو ای میل میسج ملا جس میں کسی نام نہاد مسلم گروپ نے ذمے داری قبول کی تھی۔ ای میل آئی ڈی کے مطابق پولیس مجرموں کی تلاش میں نکلی۔ مہاراشٹر کے ایک مقام پر وہ کمپیوٹر پکڑا گیا جس سے میل کیا گیا تھا۔ کمپیوٹر کے مالکان بھی پکڑے گئے، وہ مسلمان نہیں تھے۔ انہوں نے پولیس کو بتایا کہ میل انہوں نے نہیں کیا، ان کا کمپیوٹر کسی نے ہیک کرلیا تھا اور پولیس ان کا بیان مان گئی۔ اس سے بھی بڑے بڑے کام ان حربوں سے لیے جاتے ہیں۔ بیس پچیس سال قبل وادی کشمیر سے پنڈت خاندانوں کے انخلا کی اصل حقیقت ہنوز دنیا کے سامنے نہیں آسکی ہے۔ اس کام میں وقت کے گورنر کا بھی رول تھا۔ چھن چھن کر خبریں آتی رہیں کہ پنڈتوں کے گھروں کو خود پنڈتوں نے آگ لگائی، آگ لگانے والے پکڑے بھی گئے لیکن ہوا کچھ نہیں۔ فسادات بھڑکانے کے یہ طریقے بند اس لیے نہیں ہوئے کہ شرپسندوں کو کسی کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ وہ بے خوفی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اب گونڈہ کے شرپسندوں کے ساتھ کیا ہوگا، کچھ ہوگا بھی یا نہیں، یا حسب معمول دبادیا جائے گا، کہنا زیادہ مشکل نہیں۔(دعوت دہلی)