بہادر بلوچ اور میڈیا کی بے پروائی

315

بوڑھی ماں کے ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، سات لخت جگر تھے جو ایک ہی وقت میں دہشت گردی کی نظر ہوگئے۔ ایک خاندان کے بیس افراد شہید ہوگئے، ایک دوسرے خاندان کے پندرہ افراد کی شہادت ہوئی، ایک اور بوڑھے والدین کے چار بیٹے آنکھوں کا نور گل ہوگئے۔ یہ قیامت مستونگ کے سانحے میں بلوچستان کے غریب خاندانوں پر گزری۔ یہ مال مویشی چرانے والے خانہ بدوش لوگ تھے۔ لیکن کیا غریب کی آنکھوں میں خواب نہیں ہوتے؟ ان کی خواہش نہیں ہوتیں؟ اپنے بچوں کا مستقبل اپنے سے بہتر ہونے کی سوچ نہیں ہوتی؟ لیکن مستونگ میں غریب ہی نہیں سرداروں کے نوجوان بیٹے بھی پل بھر میں خاک میں مل گئے۔ گھروں کے گھر ویران ہوگئے، صحن جوان اور معصوم بچوں کی میتوں سے بھر گئے سراج رئیسانی جیسا بہادر وطن کا بیٹا جس نے اپنے باپ اور بیٹے کو کھویا لیکن اپنی وطن سے محبت کو کم نہ ہونے دیا۔ اب کتنے ہی ماں باپ اس سانحے کے نذر ہونے والے اپنے لخت جگر کو برسوں روئیں گے، بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ تکیں گی، نوجوان سہاگنیں اپنے آپ کو بیوہ ہونے کا یقین دلائیں گی۔ لیکن یہ کوئی آسان تو نہیں۔ زندگی کے لمحے لمحے میں یادوں کے سمندر ہوتے ہیں جنہیں یاد کرتے کرتے پیچھے رہ جانے والے ہلکان ہوجاتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد کرنا ہوگا اور زندگی کا بوجھ ڈھونا ہوگا۔ بار بار ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیوں ہوتا ہے، پھر ہر بار وہی دہشت گردوں کی کامیابی اور اپنی ناکامی کا رونا، آئندہ انہیں آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے اعلانات، جنازے ہی جنازے اور جنازوں کے بعد تعزیت کے لیے جانے کی خبریں۔ میڈیا کی ان خبروں کے لیے مستعدی۔ لیکن جب یہ واقعہ ہورہا تھا تو اس وقت سارا میڈیا خبر ہوتے ہوئے بے خبر بنا رہا۔ جہاز کے اندر اور باہر لمحے لمحے کی خبر اور ویڈیو کو دسیوں دفعہ دہراتے ہوئے اس کو مستونگ کے دہشت گردی کے شکار بے گناہ نظر نہیں آرہے تھے۔ محض ایک ٹیکر چلانا کافی سمجھ لیا گیا تھا۔
خدا کی پناہ ہے واقعہ پشاور کے اسکول سے زیادہ ہلاکت خیز تھا۔ لیکن عجب بے پروائی تھی۔ کیا میڈیا کو ایسی بے پروائی زیب دیتی ہے؟ میڈیا کی نظر میں تو ملک کے ہر صوبے کا شہری یکساں اہمیت کا حامل ہونا چاہیے، اصل میں ہمارا میڈیا جانب دار ہے۔ نوٹوں کی ہوا اس کو یہاں سے وہاں دوڑاتی ہے، بس جہاں مال کی خوشبو آئی وہاں ہی دوڑ لگ جاتی ہے۔ پھر کہاں وطن کی محبت اور کہاں وطن کا مفاد؟ نہ سسکتے خاندان نظر آتے ہیں نہ آنگنوں میں جوانوں کے کفن پوش لاشے۔ آپ چینل پر چینل بدلتے رہیں سیاسی جماعتوں کے ادائیگی والے مواد اور اشتہارات کی بھرمار نظر آئے گی۔ پھر ایسی ہی جماعتوں کے جلسے، جلوسوں، تقریروں اور بیانات کو اس قدر جگہ دی جائے گی کہ خالی کرسیوں کو بھی گھنٹوں دکھاتے نہ تھکیں گے، کسی جماعت کے جلسے ایک دن میں سات سات بھی ہوں تو میڈیا کو نظر نہیں آتے، چند سیکنڈ کی خبر بھی نہیں دی جاتی۔ بلاول کہتے ہیں کہ انہیں اور کچھ دوسری جماعتوں کو انتخابی سرگرمیوں سے روکا جارہا ہے۔ اگرچہ روکنے اور سوال کرنے والے ان کے اپنے صوبے سندھ کے عوام ہی ہیں ورنہ میڈیا تو ان سمیت چند پارٹیوں کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ کم از کم عوام کی شرکت اور دلچسپی کو ہی کوئی معیار بنالے لیکن نہیں۔ جن جماعتوں کو دن رات کوریج دی جارہی ہے ان کے لوگوں کو دکھاتے ہوئے کیمرہ حرکت میں آنا ہی بھول جاتا ہے، بس تقریر کرتے لوگ اور اسٹیج کے اوپر ہی کیمرے کو گھمایا جاتا ہے۔ سچی بات ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا کی بے پروائی کا شکار ایم ایم اے ہے جس کے جلسوں کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر وہ لاکھوں کی ادائیگیاں کرکے اشتہاری پروگرام اور ویڈیوز چلانے کے قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کے پاس فنڈز ہی انتہائی محدود ہوتے ہیں۔
وہ تو سوشل میڈیا ہے جو الیکٹرونک میڈیا کی بے ایمانی کا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے تو عوام کو پتا چلتا ہے کہ ایم ایم اے کے پروگرام ایک ایک دن میں کتنے زیادہ اور کتنے کامیاب ہیں۔ وہ بھی چھوٹے چھوٹے علاقوں دیر، سوات، تیمرگرہ جیسے علاقوں میں۔ پچھلے دنوں کراچی میں ہونے والا ایم ایم اے کا جلسہ جس میں توقع سے بڑھ کر حاضری تھی صبح سے پورے شہر سے نوجوانوں کے جلوس باغ جناح پہنچ رہے تھے لیکن میڈیا پر خاموشی تھی، نو بجے کی خبروں میں بھی صرف چند سیکنڈ کی خبر دی گئی۔ میڈیا کے یہ انداز صاف ظاہر کررہے ہیں کہ اس کا پرنالہ کہاں گر رہا ہے۔ جب دہشت گردی کے خلاف پاکستان عالمی اتحاد کا حصہ بنا تھا تو امریکا سمیت عالمی طاقتوں نے پاکستان کے میڈیا کو براہ راست فنڈ فراہم کرنا شروع کردیے تھے جس کے تحت میڈیا مالکان نے امریکی تھنک ٹینک کے مطابق پروگرام چلائے، صحافیوں کو امریکا کے دورے کروائے، یہ اب بھی جاری و ساری ہے کیوں کہ عالمی طاقتوں کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہر وقت میڈیاکے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ عدالت سے سزا یافتہ مجرموں کی گھنٹوں ایک ایک لمحے کی کوریج کی جاتی ہے، ویڈیوز کو بیسیوں دفعہ دوہرایا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف پاکستان سے محبت کرنے والے بلوچ سردار اور عوام دونوں کے خون کی ندیاں محاورۃً نہیں حقیقتاً بہہ رہی ہوتی ہیں۔ ’’میلکم ایکس‘‘ بین الاقوامی میڈیا کے استاد ہیں۔ انہوں نے ذمے دار میڈیا کے بارے میں کہا تھا کہ ’’اگر آپ محتاط نہیں ہیں تو میڈیا آپ کو اُن لوگوں سے نفرت کرنا سکھادے گا جو ظلم و زیادتی کا شکار ہیں اور اُن لوگوں سے محبت جو ظلم و زیادتی کررہے ہیں‘‘۔