جولائی 2018ء میں افغان جنگ میں امریکی حکمت عملی کا سالانہ جائزہ لیا گیا تا کہ اگست 2017ء میں صدر ٹرمپ کی افغان جنگ میں امریکی شمولیت کے خاتمے سے متعلق حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے، یہ حکمت عملی کیا تھی؟؟۔ امریکی حکمت عملی میں پہلی بات طالبان پر زیادہ فوجی دباؤ ڈالنا۔ دوسری بات پاکستان سے مزید تعاون کی درخواست کرنا اور تیسری بات امن مذاکرات شروع کرنے پر توجہ مرکوز کرنا تھا۔یہ تینوں نکات امریکی کیفیت اور حالات کا اظہار ہیں۔ یعنی اب کمبل کو میں چھوڑتا ہوں لیکن کمبل میری جان نہیں چھوڑرہا۔ دنیا والوں دوہائی ہے۔۔۔ کیا کروں میں کتھے جاؤں؟؟ کتھے جاؤں کی دوہائی کا جواب امریکی ارب پتی کاروباری ’’ایرک پرنس‘‘ نے یوں دیا کہ امریکا افغانستان کی جنگ اُس کی پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کردے۔ ایرک نے اپنی تجویز میڈیا کے ذریعے پچھلے سال پیش کی تھی لیکن کابل حکومت نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن اب دوبارہ اس کی اشتہاری ویڈیو ٹرمپ کو دی گئی۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرمپ کی انتظامیہ دلچسپی لے رہی ہے۔
پرنس ایرک کا دعویٰ ہے کہ اس طرح وہ یہ جنگ چھ ماہ میں ختم کرسکتے ہیں۔ بس امریکی حکومت طالبان کے خلاف غیر ملکی کنٹریکٹرز کو افغان فورسز کی مدد کی اجازت دے دے۔ ایرک پرنس امریکی بحری فوج کے ایک سابق عہدہ دار ہیں جنہوں نے بلیک واٹر کے نام سے ایک سیکورٹی کمپنی قائم کی تھی، جس کو عراق میں سیکورٹی کا کنٹریکٹ دیا گیا تھا۔ بعد میں بلیک واٹر کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا کچا چٹھا میڈیا نے دنیا کے سامنے کھولا۔ اور دنیا بھر میں احتجاج کیا گیا حالاں کہ امریکی حکومت اس کے ایک ایک عمل سے باخوبی واقف تھی بلکہ سہولتوں اور مشوروں سے بھی نوازتی رہی تھی۔ بے حد بدنام ہونے کے بعد پرنس ایرک نے بلیک واٹر کمپنی بیچ کر ایک نئی سیکورٹی کمپنی قائم کرلی۔ پھر اب اس کمپنی کے لیے ٹھیکہ حاصل کرنے کا اپنا منصوبہ پیش کیا۔ یہ ایک کاروباری منصوبے کا ٹھیکہ ہے، یعنی جنگ کا کاروبار۔ میڈیا پر آنے والی رپورٹس کے مطابق پچھلے سال ٹرمپ نے افغانستان حکمت عملی کے جائزے کے دوران اس تجویز پر غور کیا تھا، لیکن اس سال امریکا کی افغان حکمت عملی کی ناکامی کا ایک مزید سال مکمل ہونے پر ایرک کو اُمید ہے کہ اس بار اس کا منصوبہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ بقول ایرک افغان جنگ کا ٹھیکہ حاصل ہونے پر ہزاروں امریکی فوجی اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے اور اُن کے بجائے نسبتاً کم تعداد میں پرائیویٹ سیکورٹی اہل کار جگہ لے لیں گے۔ جن کو نوے طیاروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ائر فورس کی مدد حاصل ہوگی، یہ پرائیویٹ کمپنی افغانستان میں امریکی حکمت عملی کو آگے بڑھائے گی، بقول ایرک یہ کمپنی افغانستان میں امریکا کے لیے ایک وائسرئے کے طور پر کام کرے گی۔
اس وقت پینٹا گون کے مطابق امریکا افغانستان میں ہر سال تقریباً 45 ارب ڈالرز خرچ کررہا ہے، جب کہ ایرک کا کہنا ہے کہ اُن کی کمپنی یہ کام 10 ارب ڈالرز سے بھی کم میں کرسکتی ہے۔ یہ دعویٰ جیسا کچھ ہے۔ امریکی ناکامیوں کی داستان ہے اور امریکا ہی نہیں ساتھ بیالیس ناٹو ممالک کی بھی۔ امریکا نے افغان جنگ کا آغاز جن بلند و بانگ دعوؤں سے کیا تھا وہ سارے دعوے تو کچھ ہی سال میں خاک میں مل گئے اب طالبان سے مذاکرات کے لیے امریکا پچھلے کئی برس سے بے چین و بے قرار ہے۔ کافی دفعہ ایسا ہوا کہ امریکا نے اپنے کردار کو پوشیدہ رکھنے کے لیے افغان حکومت کے ذریعے مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی، اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے اور اپنی باعزت رخصتی کے لیے ہر کوشش کر ڈالی لیکن اب آخر کار امریکا کی سمجھ میں آچکا ہے کہ اس حقیقت سے نظریں چرائی نہیں جاسکتیں کہ طالبان افغانستان کی اصل مزاحم قوت ہیں۔ طالبان کا مطالبہ کہ امریکا سے براہ راست مذاکرات ہی کے لیے وہ راضی ہوں گے۔ ان کا یہ اصرار ہی ان کی بین السطور فتح کا اعلان ہے اور امریکا کی شکست کا۔
2013ء میں امریکا اور دوسری چالیس بیالیس ممالک کی فوج نے واپسی کا اعلان کیا تھا اور افغان فورسز کو اندرونی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے تیار کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان سے واپسی کے لیے امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں اختلاف ہوئے اور یہ اختلاف برطانیہ کے اپنی افواج کے انخلا کے لیے قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان سے معاہدے سامنے آنے پر ہوئے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکا نے تو پہلے ہی ان ممالک سے ایسے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یعنی واپسی کے لیے (بھاگنے کے لیے) راستے محفوظ کرنے پر اختلافات سامنے آئے تھے۔ فوجیوں کی تعداد آہستہ آہستہ کم کرلی گئی، اسے امریکا اور چالیس بیالیس ملکوں کی کامیابی کہا جاسکتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں گیارہ ہزار امریکی افواج موجود ہے، جن کو بحفاظت واپس امریکا بھیجنے کے لیے ایرک نے افغان جنگ کو پرائیویٹائز کرنے کا منصوبہ امریکی حکومت کو دیا ہے، یہ کرائے کے فوجی پہلے بھی امریکی افواج کے ساتھ عراق میں شہریوں کا قتل عام کرتے رہے ہیں، امریکی فوجی افغانستان میں افغان قصبوں اور دیہاتوں میں گھروں میں گھس کر فائرنگ کرتے رہے ہیں، معصوم بچوں اور عورتوں پر براہ راست گولیاں چلاتے رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ امریکی فوجیوں اور کرائے کے قاتلوں میں فرق کرنا مشکل رہا ہے۔