ایران سے محبت کے تعلقات

512

ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے۔ ہمسایہ ہونے کے اثرات زندگی کے ہر میدان میں نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ثقافتی تجارتی اور سیاسی روابط ہمیشہ سے ہیں۔ ان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یوں تو ہمسایوں کی اہمیت کے لحاظ سے پاکستان کے ہر ہمسایے سے تعلقات اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن ایران کے ساتھ معاملہ بالکل علیحدہ ہے۔ ایسے حالات میں جب کہ ایران کے ساتھ تقریباً ساری دُنیا نے امریکا کے کہنے پر تعلقات محدود کردیے ہیں بلکہ پابندیاں عائد کردی ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ ایران کے باہمی تعلقات اُسی طرح تجارت، ثقافت اور سیاحت ہر شعبے میں قائم ہیں بلکہ تعلیمی میدان میں بھی زرعی صنعتی اور انجینئرنگ ریسرچ کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تعلقات کو مزید مستحکم بنایا جائے۔ میں پچھلے دنوں سندھ کے وزیراعلیٰ دورے پر ایران گئے تو اس سلسلے میں مختلف امور پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پابندیوں اور تمام تر کشیدگی کے باوجود ایران میں امریکی مصنوعات کی فروخت عام ہے۔ حالات پر نظر ڈالیں تو امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ’’ملک ایسے سخت دبائو میں ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حالات 1980-88 میں ایران عراق جنگ سے زیاداہ ابتر ہیں۔ صدر روحانی کے لیے اس وقت سیاسی صورتِ حال سازگار نہیں ہے۔ انہوں نے ملک میں سیاسی قوتوں اور عوام سے امریکی پابندیوں کا مقابلے کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ ان انتہائی کشیدہ حالات اور پابندیوں کے باوجود ایران میں امریکی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ کہنے کو امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ تہران کے ریستوران اور ہوٹل ایسے مناظر سے بھرے نظر آتے ہیں کہ لوگ امریکی اشیا خورونوش استعمال کرتے ہیں، کوکا کولا امریکی کیمپ ہائنز اور دیگر کمپنیوں کی مصنوعات آج کے ایران میں باآسانی دستیاب ہیں۔ بازار امریکی مصنوعات، کپڑے اور جوتوں سے بھرے ہیں۔ ’’ٹباسکو‘‘ ’’ٹائمز شوز‘‘ اور دیگر کمپنیوں کی مصنوعات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں لیکن کمپنیاں اس بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دے رہی ہیں سوائے مشروبات کی کمپنیوں کے۔
2016ء میں تیار کی گئی ایک رپورٹ ’’پورومانیٹر‘‘ کے مطابق ایرانی مشروبات کی مارکیٹ میں کوکا کولا کا حصہ اٹھائیس فی صد جب کہ پیپسی کولا کا حصہ بیس فی صد کے قریب ہے۔ مرغن کھانوں اور کباب کے بعد کوکا کولا پینا ایرانی عوام کی روز مرہ زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ان دونوں کمپنیوں کے لیے مشروب مقامی ایرانی کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں امام رضا فائونڈیشن سے منسلک ہیں جو ایک طرح سے حکومت ہی کا حصہ ہیں۔ کوکا کولا کمپنی کا کہنا ہے کہ ایران میں اُن کے مشروبات کی فروخت امریکی پابندیوں کے خلاف نہیں۔ ہمیں اس کام کے لیے محدود نوعیت کی اجازت ہے۔ کمپنی کی ایران میں کوئی ملکیت نہیں اور نہ ہی ٹھوس اثاثے ہیں۔ ایران میں امریکی مصنوعات مقامی ڈسٹری بیوٹرز کے توسط سے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایران میں امریکی مصنوعات کی درآمد میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تہران ریسرچ ری ایکٹر ستر کی دہائی میں خود امریکا نے ایران کو تحفہ میں دیا تھا۔ 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ گزشتہ برس بے یقینی کا شکار ہوگیا تھا جب صدر ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہوتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کردی تھیں ان امریکی پابندیوں کا سب سے بڑا نشانہ ایرانی تیل کی برآمدات کا مکمل خاتمہ کرنا تھا۔ عالمی تجارت میں امریکا ایک اہم ترین ملک ہے وہ اپنی اسی اہمیت اور پوزیشن کو سیاسی طور پر استعمال کرنا جانتا ہے۔ چناں چہ اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سز ادینے کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران کے بازاروں اور ہوٹلوں میں پھر بھی امریکی مصنوعات نظر آئیں گی۔ اور کثیر تعداد میں ایرانی انہیں استعمال کررہے ہیں۔ یعنی جہاں امریکی کمپنیوں کے مفادات کی بات ہو وہاں پابندیاں ڈھیلی ہی رہتی ہیں۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ 2015ء میں جوہری معاہدے کے وقت ایران میں ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا اور اب ایرانی ریال کی قیمت مزید کم ہو کر ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ افراط زر کی شرح 27 فی صد اور بے روزگاری کی سطح 12 فی صد تک جا پہنچی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ امریکی معاہدے ہمیشہ امریکی مفادات ہی کو تحفظ دیتے ہیں۔