مسٹر پرائم منسٹر! آپ کیا کررہے ہیں؟

202

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون کو 37 دن گزر گئے۔ اس دوران میں دکانیں، کاروبار بند ہے۔ علاقوں کو خاردار تاریں لگا کر سیل کردیا گیا ہے، کسی قسم کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں، یہاں تک کے ایمبولینسوں اور طبی عملے کو بھی نقل و حرکت کی اجازت نہیں۔ قابض بھارتی افواج لائوڈ اسپیکر سے لوگوں کو گھروں سے نہ نکلنے کی وارننگ دے رہی ہے، صحافیوں کو بھی کسی قسم کی کوریج کرنے کی اجازت نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فونز بند کردیے گئے ہیں، اتنے عرصے ان سروسز کی بندش کے باعث موبائل کمپنیوں کو خسارے کا سامنا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ملازموں کو فارغ کررہے ہیں، حال ہی میں دو چار دن کے اندر پندرہ سو نوجوانوں کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا، کشمیر ہی نہیں انڈیا میں بھی صحافیوں کو کشمیر کے لیے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ پچھلے دنوں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق نائب صدر شہلا رشید کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا کیوں کہ انہوں نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعے کشمیر میں انڈین افواج کے بہیمانہ مظالم کا پول کھولا تھا۔ شہلا رشید کشمیری ہیں، انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ کشمیر میں مسلح فوجی رات کو گھروں میں داخل ہوتے ہیں، لڑکوں کو حراست میں لیتے ہیں، گھروں کے سامان کو تباہ کرتے ہیں اور کھانے کی اشیا کوضائع کردیتے ہیں۔ ایک دوسرے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ شوپیاں میں چار لڑکوں پر فوجی کیمپ میں شدید تشدد کیا گیا، اس دوران ان کے قریب مائک رکھا گیا تا کہ پورے علاقے کے لوگ اُن کی چیخیں سنیں اور ان کو خوفزدہ کیا جاسکے۔ اُس پورے علاقے میں انتہائی خوف کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ پورے جموں و کشمیر کے لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہیں، بچوں سمیت ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، لوگوں میں اس بات کا خوف ہے کب کس گھر کے اندر بھارتی فوج گھس جائے اور نوجوانوں کو پکڑ کر لے جائے۔
سرینگر کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ ’’ہمارے تمام لیڈروں کو گھروں میں قید کردیا گیا ہے یا جیل بھیج دیا گیا ہے، اب ہم لوگ کہاں جائیں اور کس سے اپنا درد بیان کریں؟ کشمیریوں کو انڈیا کے لوگوں سے بھی شکایت ہے کہ وہ خاموش کیوں ہیں؟ کیا وہ اپنی حکومت کی باتوں پر یقین کرتے ہیں؟۔ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک کے اداروں کی حالت مایوس کن ہے۔ کیا وادی میں 10 لاکھ فوجیوں کی موجودگی کسی لحاظ سے بھی حالات کے نارمل ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ وہاں ہر 7 کشمیریوں پر ایک فوجی موجود ہے۔ جو ہر طرح کے اسلحے سے لیس ہے۔ انڈین فوج کے ظلم اور حکومت کے اقدامات کشمیریوں کے دل میں بھارتیوں کے لیے نفرت بھررہے ہیں۔ کشمیر کے چند لوگ اگر اب تک انڈین حکومت کا ساتھ دیتے تھے تو اب وہ کہتے ہیں کہ بس اب نہیں!!۔کشمیری نوجوان جو پچھلے 70 برس سے انڈیا سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے لیکن موجودہ پرتشدد مظالم نے انہیں بے خوف بنادیا ہے، وہ علی الاعلان کہتے ہیں اب ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ بھارتی افواج کے خلاف ہم بندوق اُٹھائیں گے یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد سے سب کچھ قابو کرلیں گے ہرگز نہیں ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے۔ ہر طرح کا میڈیا نوجوانوں کے زخمی جسموں کو دکھا رہا ہے۔ اگرچہ پابندیوں کے باعث ہونے والے تشدد کے مقابلے میںو ہ تصاویر اور رپورٹیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن موجود ہیں۔ ایسے ثبوتوں کے طور پر جن کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، مگر انڈین فوج کے ترجمان کہتے ہیں کہ ’’ان الزامات کے برعکس ہم نے کسی شہری کو تشددکا نشانہ نہیں بنایا۔ یہ سارے الزامات ہیں جو دشمن عناصر کی جانب سے پروان چڑھائے گئے ہیں۔
خوب اگر ایسا ہے تو بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو جانے کی اجازت کیوں نہیں دیتی۔ بین الاقوامی میڈیا تو دور کی بات ہے وہ تو اپنے میڈیا کو کشمیر کا رُخ نہیں کرنے دے رہے۔ کشمیر کے ایک 60 سالہ شہری ’’محمد سبحان‘‘ بھارتی حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’یہ شدید جبر خطے میں بھارت کے خلاف مزید نفرت کی وجہ بنے گا۔ اور مسلح بغاوت کو جنم دے گا۔ نئی دہلی کی حکومت نے اب تک کشمیر میں جو اقدامات کیے ہیں اُن سے کشمیری عوام میں پائے جانے والے غم و غصہ اور علیحدگی پسندانہ سوچ میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہی ہوا ہے‘‘۔ایسے جبر کا نتیجہ ہمیشہ کرنے والے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہی رہتا ہے۔ کیا بھارت کو اس بات کا اندازہ ہے؟ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسے جبر کے ہمیشہ منفی اور جابروں کے لیے انتہائی نقصان دہ نتائج ہی نکلتے ہیں۔ بہرحال کشمیری بھارتی افواج کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت جو ایٹمی طاقت ہے وہ اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے کیا کررہی ہے؟۔ سقوط کشمیر کا قدم بھارت نے اُٹھالیا ہے لیکن حکومت پاکستان کی بے عملی بے معنی شور و غوغا مجرمانہ خاموشی پاکستانی عوام کو مضطرب کررہی ہے۔ اب بھی مذاکرات کی بھیک مانگی جارہی ہے، اب بھی فضائی راستہ بند کرنے کا قدم نہیں اُٹھایا گیا، صرف انڈیا کے صدر کو گزرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب بھی کلبھوشن کی آزادی کی بات دوہرائی جارہی ہے، وہ بھی جنگ کے بادل ہٹانے اور کے لیے گڑگڑا کر۔
پاکستانی حکومت کیا کررہی ہے اپنی زمین پر احتجاج یا عالمی برادری سے اپیل جو پچھلے 70 برس سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر نگل لیا۔ وزیراعظم عمران خان آپ نورا کشتی نہ لڑیں، آپ نے بھارت سے تجارت کو جاری رکھا ہوا ہے، فضائی راستے بحال ہیں، کرتارپور راہداری کھولنے جارہے ہیں، کلبھوشن کو آزادا کرنے کا اعلان کررہے ہیں، انڈین پائلٹ کو چائے پلا کر رخصت کردیا، لاہوری نمک کی بھارت کو درآمد جاری ہے، سلامتی کونسل میں بھارت کو ووٹ دے کر نشست دلائی۔ آخر آپ بھارت کے کس اقدام کا انتظار کررہے ہیں۔ کون سی اینٹ کے جواب میں پتھر پھینکے گے؟۔ یاد رکھیں پاکستانی قوم نہ جنگ سے ڈرتی ہے نہ جہاد سے۔ یہ پاکستان ہی ہے جو پچھلے کئی عشروں سے حالت جنگ میں ہے۔ یہ بات ہمارے کمانڈر انچیف ہمیں بتاتے رہے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، جنگ اگر تجارت اور معیشت کی مضبوطی اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جیتی جاسکتی تو امریکا کبھی افغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک نہ مانگتا۔ جنگ جذبے، ہمت اور اعتماد سے جیتی جاتی ہے اور یقینا کشمیری یہ جنگ جیتیں گے لیکن یہ بھی جان لیں کہ آپ کی مجرمانہ خاموشی پر پاکستان کے بہادر اور غیور عوام آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔