عمارہ ملک
٭ ریس کورس گرائونڈ ڈھاکا میں جب جنرل نیاز ی اپنے ہتھیار جنرل اروڑہ کو سونپ کر سانحہ مشرقی پاکستان کی آخری رسومات ادا کر رہے تھے تمام سرکاری عمارتوں اور فوجی بیرکوں سے پاکستانی پرچم اتار کر بنگال کی سرزمین پر آخری سلام پیش کیاجا رہا تھا عین اسی وقت چشم فلک نے یہ منظربھی بڑے غور سے دیکھا کہ میرپور اور محمد پور کالونی کے محب وطن پاکستانی مردوزن عالم جنون میں پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے اسلام ،پاکستان اور قائداعظم زندہ با د کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے بھارتی فوج اور مکتی باہنی کا محاصرہ توڑ کر ہزاروں کی تعداد میں ڈھاکا کی سڑکوں پر آگئے۔ ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کا جنون قابل دید تھا اصرار تھا کہ ہم اسوہ شبیری اور سنت عباس علمدار کی پیروی کرتے ہوئے اس پرچم کو اس وقت تک سرنگوں نہیں ہونے دینگے جب تک بستی کا ایک فرد بھی زندہ ہے۔
یوں تو پورے مشرقی پاکستان میں اُردو بولنے والوں نے پاکستان اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے بے مثال قربانیاں دیں مگر میرپور اور محمد پور کے جاں نثار پاکستانیوں نے حب الوطنی اور جوانمردی کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے ان متوالوں نے 18 دسمبر 1971 کی شام تک ڈھاکا کی سڑکوں پر پاکستانی پرچم کو سربلند رکھا۔ کاش کہ اس وقت بھی آج کی طرح متحرک اور فعال میڈیا ہوتا تو جذب حُب الوطنی کا وہ بے مثال مظاہرہ وقت کی گرد تلے دب کر اہل پاکستان اور دنیا والوں کی نظروں سے یوں اوجھل نہ رہتا۔
پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈال دینے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد محب وطن پاکستانیوں کیلئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ سارے کے سارے مزاحمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیتے مگر عورتوں اور بچوں کی مجبوری ان کے پیروں کی زنجیر بن گئی۔ 18 دسمبر کی شام بھارتی فوج کے ایک افسر نے اردو زبان میں لائوڈ اسپیکر پر اعلانات کرکے انہیں یہی باورکرایا پھر انہوں نے سوچا اگرچہ مشرقی پاکستان ختم ہوا ہے روئے زمین سے خدانخواستہ پاکستان کا نام و نشان تو نہیں مٹا۔ لاہور، پنڈی، اسلام آباد ، پشاور، کوئٹہ ، کراچی اور دیگر لاتعداد شہر اب بھی ایسے ہیں جہاں پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہرارہا ہے۔ ہمیں اپنا گرم لہو باقی ماندہ پاکستان کے لالہ و گل کی آبیاری کیلئے بچا رکھنا چاہئے۔
ادھر بی بی سی اور وائس آف امریکا کے ذریعے خبریں آرہی تھیں کہ مغربی پاکستان کے عوام جہاں ایک طرف سانحہ مشرقی پاکستان پرصدمے سے دوچار ہیں وہیں وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کیلئے بھی نہایت مضطرب و بے چین ہیں ان خبروں نے انہیں ہمت اور حوصلہ دیا اور ان کے جذبہ پاکستانیت کو اور جوان کردیا۔
23 مارچ1971 سے لیکر 18دسمبر 1971اور اس کے بعد تک ناموس وطن کیلئے سات لاکھ عزیز و اقارب کی قربانیاں اپنا کُل مال ومتاع سے محرومی ہزاروں عزتوں کی پامالی سب کچھ فراموش کرکے وہ کیمپوں میں محصور ہوگئے۔ ایک آس تھی کہ وہ بہت جلد عزت و احترام کے ساتھ پاکستان بلالئے جائیں گے۔ جہاں پہنچ کر وہ عقیدت سے اپنے وطن کی مٹی کو چومیں گے اور اس کی فضائوں میں پھر سے سبزہلالی پرچم لہراسکیں گے۔ جو انہوں نے 18دسمبر کی شام کو لپیٹ کر اپنے سینوں سے لگا رکھے تھے۔ مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے انتظار کی رات اتنی طویل ہوگی کہ لگ بھگ نصف صدی کے قریب ماہ و سال گزرجانے کے باوجود طلوع سحر کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر کچھ دنوں کے بعد آس اور امید کا کوئی دیا ہلکا سا ٹمٹما تا ہے مگر اس کی لو پوری طرح روشن ہونے سے پہلے ہی بجھ جایا کرتی ہے۔
کبھی شملہ معاہدے کی صورت تو کبھی جنرل ضیاء کی یقین دہانیوں کی شکل میں کبھی رابطہ عالم اسلامی اور حکومت پاکستان کے زیراہتمام رابطہ ٹرسٹ کے قیام کی صورت تو کبھی وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کی اعلان ڈھاکا کی صورت میں کبھی وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے منتقلی کیلئے کمیٹی کے قیام کی صورت اور کبھی جنرل مشرف کی ڈھاکا میں نسیم خان مرحوم سے ملاقات میں یہ چشم نم یقین دہانیوں کی صورت میں۔ انہی اعلانات اور یقین دہانیوں پر امید لگائے محصور ین 70سے زائد کیمپوں میں گزشتہ 48سال سے غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سقوطِ ڈھاکا کے ابتدائی دنوں میں ہی اگر حکومت اور اہل پاکستان محصورین سے اعلان ِ لاتعلقی کردیتے تو شاید ان کے خوابوں کا تاج محل اسی وقت ٹوٹ کر بکھر جاتا ان کی آس اور امیدیں اس وقت دم توڑ دیتیں ۔وہ پاکستان سے اپنی نسبت اور تعلق کا سراب اپنی آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کا جرم نہ کرتے وہ اپنے ضمیر اپنی انا اور خودداری پر لگنے والے گھائو کو بے وفائی کے مرہم سے مندمل کرلیتے وہ اسی وقت اپنے خوابوں کی کرچیاں جمع کرکے اس سرزمین پر پھر سے ایک نیا آشیانہ بنالیتے۔
بھوک افلاس بیماری غربت اور جہالت کے جہنم میں گھٹ گھٹ کر جینے والے محصورین آج 47 سال بعد کس دروازے پر دستک دیں ۔ اپنی تین نسلوں کی تباہی اور اپنی طویل محرومیوں کا حساب کس سے مانگیں۔ کیا اس دور کے منصف کوئی زنجیر عدل نصب کریں گے یا محصورین صبح قیامت کا انتظار کریں۔ جہاں احکم الحاکمین کی عدالت کا فیصلہ صادر ہوگا۔
افواج پاکستان اور ارباب اختیار جواب دیں کیا محصورین کے آبا واجداد تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ نہیں رہے۔ کیا پاکستان کی بنیادوں میں ان کا مقدس لہو شامل نہیں کیا دوسری دفعہ 1971ء میں پاکستان اور افواج پاکستان کی حمایت کرکے وہ بنگالی اکثریت کے ظلم و ستم کاشکار نہیں ہوئے۔ پھر کس جرم کی پاداش میں انہیں اور ان کی نسلوں کے گلے میں طوق ملامت ڈال کر نشان عبرت بنادیا گیا کیا پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے تن من دھن کی بازی لگادینا پاکستانی قانون کے مطابق اتنا سنگین جرم ہے کہ اس کی سزا کی کوئی حد مقرر نہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ گزشتہ چند سال سے بااثر بلڈر اور لینڈ مافیا کیمپوں میں بھی محصورین کو چین سے رہنے نہیں دے رہی۔ شہر کے مضافات میں قائم ہونے والے کیمپ آبادی کے پھیلائو کی وجہ سے اب وسط میں واقع ہیں چاروں طرف فلیٹس اور پلازے کے درمیان میں گندی جھونپڑیاں ایک طرف مخمل میں ٹاٹ کا پیوند تو دوسری طرف یہ زمین بلڈرز کیلئے سونے کی کان ہے جنہیں ہتھیانے کیلئے وہ آئے دن نت نئے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ کبھی لالچ کبھی دھونس دھمکی، کبھی بجلی اور پانی کی بندش کبھی کیمپوں کو نذرآتش کرنا اور عورتوں کی چھیڑ چھاڑ مگر ان کا دست ستم روکنے والا کوئی نہیں۔
محصورین کے نمائندے پاکستانی سفارت خانے جاکر مدد کی اپیل کرتے ہیں۔مگر پاکستانی سفارتخانے کے اہل کار محصورین کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جیسا اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ۔
ہم پاکستانیوں کیلئے یہ زیادہ اہم ہے کہ محصورین آئینی اور قانونی طور پر محب وطن پاکستانی ہیں۔ پاکستان منتقل ہونا ان کا جائز حق ہے اور حکومت اور اہل پاکستان کا انہیں باعزت پاکستان لانا قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔
یہی وقت ہے کہ حکومت عالمی برادری کو ساتھ ملاکر برسوں سے تعطل کا شکار اس اہم قومی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کیلئے جرات مندانہ قدم اٹھائے۔ تاکہ جب حب الوطنی وفاپرستی سے بے اعتنائی اور ایک اہم قومی ذمہ داری سے لاپروائی برتنے کا جو جرم اب تک ہم سے سرزد ہوتا رہا ہے اس کا ازالہ ہوسکے۔
یہ کس انداز کا شہرِ وفا ہے
جہاں نفرت محبت کا صِلہ ہے