سانحہ مشرقی پاکستان کو49برس بیت گئےمگر حکمرانوں کی روش نہیںبدلی سید مسرت خلیل (جدہ)

267

سانحہ مشرقی پاکستان کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس سال کے واقعات کو 1947 سے مشرق اور مغربی پاکستان کے درمیان جو ناہموار اورغیرمستحکم تعلقات تھے اس کو مد نظررکھا جائے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہی کہ سانحات اس وقت جنم لیتے ہیں جب نا انصافی ہوتی ہے، جب نا انصافی ہوتی ہے تو احسا س محرومی انسانوں کے اندر پیدا ہوجاتا ہے۔ جب احساس محرومی پیدا ہوتا ہے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ کچھ ایسا ہی سلسلہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوا۔ بہت پہلے شہاب نامہ جسے شہاب الدین صاحب نے لکھا تھا اس میں بہت سی چیزوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو مغربی پاکستان کے لوگ مشرقی پاکستان کے ساتھ کرتے رہے۔ اسی نا انصافیوں کی وجہ سے یہ سانحہ 1971 میں جنم لیتا ہے۔ اس کے بعد ایک اورکتاب منظرِ عام پر آتی ہے جو بریگیڈیر صدیق سالک صاحب نے تحریر کی تھی جس کا عنوان تھا " میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا" کن وجوہات کی بناء پر ڈھاکہ ڈوبا وہ اس کتاب کے اندر درج ہے۔ اگر ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کریں تو بہت سی چیزیں کامن ملےگی ۔ لیکن اس کا نچوڑ یہ ہی ہے احساس محرومی اور نا انصافی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کو آج اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود ہمارے حکمرانوں کی روش نہیں بدلی اور نہ ہی انھوں نے کوئی سبق سیکھا۔ آج بھی صوبوں میں بے چینی ہے۔ کوئی نہ کوئی ادارہ اس چیزکی شکایت کررہا ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے۔ اس کی وجوہات بے حسی ہے۔ وہ غفلت ہے جو سقوط ڈھاکہ کی سبب بنی تھی۔ عوام کو غور کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کو اس سے غفلت سے بچنا چاہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے سانحات رونما نہ ہوں۔ جہاں تک مشرقی پاکستان میں محصورین کا تعلق ہے، پی آر سی کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ یہ آوازیں بلند کی گئی ہے کہ وہ پاکستانی ہیں ان کو پاکستان واپس لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ حال ہی میں ان کے کیمپوں میں آگ لگا دی گئی ۔ کچھ لوگ سو رہے تھے وہ جل گئے ، کچھ لوگ کام پر گئے ہوئے تھے واپس آئے تو ان کے بچے جلےہوئے تھے ۔ دکھ اور افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ پوری مسلم امہ تو دور کی بات پاکستان میں بھی اس واقعہ سے کوئی باخبر نہیں۔ ہمارے میڈیا نے بھی اس خبر کوعام نہیں کیا جس طرح عام کرنا چاہیے تھا ۔ ایک سوچے سمجھے اسکیم کے تحت ان بے سرو ساماں اور بے یار و مدگار پاکستانیوں کو ان کی جگیوں سے بے دخل کرنے کے لئے آگ لگائی جاتی ہے۔ حالیہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں اس پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات کہ کہ لوگ بنگلا دیش کے کیمپوں میں محصور محب وطن پاکستانیوں کوبھولتے جارہے ہیں۔ یہ کسی المیے سےکم نہیں ہے۔
پی آر سی محصورین کے کاز کے ساتھ کشمیر کاز کو بھی بہت ایمیت دیتی ہے ۔ان کا نعرہ ہی یہ ہے الحاق کشمیرکے بغیرپاکستان نہ مکمل ہے۔ آج 100دن سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر بیچارے ان مظلوموں کی کوئی شنوائی نہیں ہے جو کسمپری کی حالت میں گھروں میں بند ہیں ۔اب جنازے بھی اپنے ہی گھروں میں دفنا رہے ہیں۔ سوچیں ہمارے کشمیری بھائی کس حالت سے گزر رہے ہونگے۔ قصہ مختصر یہ ہی ہے کہ مسلم امہ ایسی متحد ہو اگر ایک مسلمان مشکل میں ہے تو پوری مسلم امہ حرکت میں آجائے۔مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے اندر وہ احساس پیدا کرے مسلمان ہونےکی حثیت سے دوسرے مسلمان کا دکھ درد سمجھ سکیں۔