طلبہ یونینز کی بحالی

163

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر شدت اختیار کرچکا ہے۔ اس مرتبہ اس مطالبے میں صرف جمعیت ہی نہیں، تمام طلبہ تنظیمیں شامل ہیں۔ رائٹ ہی نہیں لیفٹ بھی، اسلام دوست ہی نہیں لبرل اور سیکولر بھی۔ گزشتہ دنوں اسی موضوع پر چھوٹے بڑے 26 شہروں میں مظاہرے ہوئے، اگرچہ ان مظاہروں کے مقاصد میں طلبہ یونین بحالی کا مطالبہ تو محض زیب داستاں تھا، اصل عنوان نہیں، تاہم مقاصد کچھ بھی ہوں، طلبہ یونین بحالی کا مطالبہ جمہوری بھی ہے اور آئینی بھی اور حکومتی تائید کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی حمایت میں بیان دینے کے بجائے اس کی بحالی کی طرف پیش رفت کی جائے۔
طلبہ یونین بحالی کے سلسلے میں ہمیشہ دو آراء رہی ہیں۔ ایک طبقہ طلبہ یونین بحالی کا مخالف ہے وہ اس خدشے کا اظہار کرتا ہے کہ طلبہ یونین بحالی سے ایک مرتبہ پھر تعلیمی ادارے جنگ و جدل، لڑائی جھگڑوں، قتل و غارت اور اساتذہ کی توہین کے مراکز بن جائیں گے۔ مذکورہ بالا خدشات خود طلبہ یونین بحالی کے حق میں دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے کہ تعلیمی اداروں میں لڑائی جھگڑوں کے واقعات اس عرصے کے ہیں کہ جب طلبہ یونین پر پابندی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ طلبہ یونین تعلیمی اداروں کے ماحول کو منظم کرتی ہے ان کی موجودگی میں طلبہ و طالبات اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں اور یہ امر سمجھنا مشکل نہیں کہ طلبہ تنظیموں نے طلبہ و طالبات کے ووٹ حاصل کرنے ہیں اس لیے وہ تشدد کا راستہ اختیار ہی نہیں کر سکتیں۔ انہیں تو اپنے ووٹرز کو خوش کرنا، خوش رکھنا ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرتی ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
طلبہ یونینوں پر پابندی 1984ء میں ضیاء الحق کے دور میں لگائی گئی تھی اسے قریباً 36 سال ہوچکے ہیں اس لیے بعض تعلیمی اداروں میں قتل و غارت، لڑائی جھگڑوں، پرتشدد کارروائیوں، اساتذہ کی توہین جیسے واقعات اسی عرصے میں ہوئے ہیں کہ جب یونینیں نہیں تھیں۔ اسی دوران لاہور اور کراچی کے بعض تعلیمی ادارے اور ان کے ہاسٹل چوری کے موٹر سائیکلوں، جوئے کے اڈوں، منشیات کے مراکز، بھتا خوری، ویگنوں سے جگا ٹیکس اور قبضہ گروپوں کے لیے مصروف ہوگئے تھے۔ ظاہر ہے کہ طلبہ یونین کی موجودگی میں ان میں سے کوئی کام بھی ممکن نہیں۔ طلبہ یونین طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کا اجتماعی اور قانونی ادارہ ہوتی ہیں، چنانچہ طلبہ یونینوں نے اس سلسلے میں گراں قدر کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ جامعہ پنجاب میں 60ء کی دہائی سے لے کر 1984ء تک طلبہ یونین کام کرتی رہی ہیں، آج جامعہ پنجاب اپنی تعمیرات، توسیع، تعلیمی معیار اور اچھی علمی روایات کے ساتھ جس مقام پر ہے، اس میں طلبہ یونینوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ میں 1973ء میں جامعہ پنجاب کا صدر منتخب ہوا، مجھ سے پہلے جاوید ہاشمی، حفیظ خان، حافظ محمد ادریس و دیگر احباب یونین کے صدور رہے۔ اس وقت جامعہ پنجاب کے پاس کل چار بسیں تھیں ہماری یونین نے کوشش کر کے بسوں کی تعداد 11 کردی تھی ہم نے ہفتہ کتب منا کر مختلف شعبہ جات کی لائبریریوں کے لیے کتابیں یا عطیات جمع کیے۔ یہ 1974ء کی بات ہے ہم نے 13 لاکھ روپے (آج کے حساب سے چھ کروڑ روپے تقریباً)، کی کتابیں جمع کیں اور تمام شعبہ جات بالخصوص شعبۂ سائنس کو یہ کتابیں فراہم کیں۔ ایم بی اے کا شعبہ نیا نیا شروع ہوا تھا اس کی لائبریری کے لیے کتابوں کا بڑا عطیہ ہماری یونین نے فراہم کیا ہماری ہی گزارش پر عبدالرزاق دائود (موجودہ وزیر تجارت) نے اس شعبے میں اعزازی لیکچرز دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ میرٹ پر داخلے ہماری یونین ہی کا کارنامہ ہے، اس سے پہلے داخلہ صدر شعبہ ٹیسٹ و انٹرویو کی روشنی میں دینے یا نہ دینے کا اختیار رکھتا تھا، چنانچہ اکنامکس میں فرسٹ ڈویژن رکھنے والے کو داخلہ نہ دیا گیا جبکہ تھرڈ ڈویژن کی ایک طالبہ کو داخل کر لیا گیا، تب بھر پور مہم چلا کر یہ فیصلہ کروایا گیا کہ داخلہ سو فی صد میرٹ پر ہو گا۔
طلبہ یونین کے ذریعے طلبہ کو قومی مسائل سے آگاہی ہوتی ہے۔ طلبہ کی قائدانہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اب جبکہ ووٹر کی عمر اٹھارہ سال ہے تو ان طلبہ کی سیاسی تربیت اور قومی شعور کی پختگی انتہائی ضروری ہے۔ طلبہ یونین اور طلبہ سیاست نے ملک و قوم کو بہترین سیاست دان اور قومی رہنما دیے ہیں ان میں جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق، سابق امراء قاضی حسین احمد، سید منورحسن، لیاقت بلوچ، حافظ محمد ادریس، امیر العظیم، عبدالشکور، اسد اللہ بھٹو، راشد نسیم، میاں مقصود احمد، مشتاق احمد خان، عنایت اللہ، مسلم لیگ ن کے مخدوم جاوید ہاشمی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، پی پی کے قمر زمان کائرہ، چودھری منظور، معراج محمد خان، این ڈی خان، رانا فاروق، پی ٹی آئی کے عارف علوی (صدر پاکستان)، اسد قیصر (اسپیکر قومی اسمبلی)، اعجاز چودھری، میاں محمود الرشید، شیخ رشید، بابر اعوان، اے این پی کے اسفند یار ولی، افراسیاب خٹک، بشریٰ گوہر، دیگر شعبہ ہائے زندگی، اشرف سوہنا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، احمد بلال محبوب، ڈاکٹر ادیب رضوی، امان اللہ کنرانی، جسٹس شوکت صدیقی، دیگر بے شمار سیاستدان، پارلیمنٹیرینز، قومی رہنما وغیرہ، یہ وہ ہیں کہ جن کا بہر حال کوئی معیار، وقار اور کردار ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد قومی منظر نامے پر کوئی ایسا نام نہیں جسے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔ محض جاگیردارانہ سیاست اور الیکٹیبلز کی بالادستی کام کر رہی ہے۔
طلبہ یونین کے ذریعے طلبہ کو صحت مند سرگرمیوں، فکر انگیز مباحثوں، بامقصد مذاکروں، طلبہ عدالتوں اور معیاری مشاعروں وغیرہ کی تقریبات ملتی ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے ہی سیاسی تربیت کے مراکز ہوتے ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم جٹسن ٹروڈو نے اپنی آپ بیتی میں اپنی تعلیمی زندگی ہی کو اپنی کامیابیوں کا نکتہ آغاز قرار دیا ہے۔ برصغیر میں 1905ء میں تقسیم بنگال کے بعد انگریزوں کی مخالفت نے طلبہ و نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کیا۔ پنجاب میں حکومت کے امتیازی رویے کے خلاف کنگ ایڈورڈ کالج کے طلبہ نے تحریک چلائی پھر 1920ء کی تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں طلبہ کافی سرگرم رہے۔ قیام پاکستان میں علی گڑھ یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج سمیت طلبہ نے نمایاں اور بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ یقینا اب وقت آگیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو فی الفور بحال کیا جائے۔ بعض پابندیوں کے ساتھ طلبہ یونین کی بحالی یقینا تعلیمی ماحول کو شفاف، خوشگوار اور علمی و تحقیقی بنانے میں مدد گار ہوگی۔
اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان، طلبہ کی سب سے منظم، مضبوط تنظیم ہے۔ اس کی شان دار تاریخ ہے اس نے پاکستان کے تحفظ کی نظریاتی و جغرافیائی جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آج کردار کی سیاست، قومی وقار کی صحافت، عدل و انصاف کی عدالت، دیانتداری پر مبنی تجارت، اسلامی اصولوں پر مشتمل ثقافت اور ملک و قوم کی حفاظت کرنے والوں میں سرفہرست وہ لوگ ہیں جن کا ماضی میں تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ہے۔ بلاشبہ جمعیت سے تعلق رکھنے والوں سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن قابل اطمینان امر یہ ہے کہ جمعیت کے نظام احتساب نے ان طلبہ کا خود کڑا احتساب کیا انہیں جمعیت سے نکالا اور بعض کے خلاف خود پرچے کروائے۔