عباس عالم
جناب گزشتہ کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ خبروں اور اطلاعات تک رسائی کے اس جدید دور میں بھی ہم لوگ انتہائی ضروری اور اہم خبروں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہم تک محض چند منتخب خبریں ہی پہنچ پاتی ہیں یا یوں کہیے کہ خود ہم صرف چند منتخب خبرو ں تک پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ اکثر ہم ایک چھوٹی لیکن انتہائی بنیادی حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ بنیادی طور پر ہم خبروں کو نہیں بلکہ میڈیا کو فالو کرتے ہیں۔ میڈیا ہمیں جو دکھاتا ہے دیکھتے ہیں جو نہیں دکھاتا نہیں دیکھتے۔ اور نہ ہی سوچتے ہیں کہ میڈیا پہ آنے والی خبروں کے علاوہ بھی بے شمار ضروری اور اہم خبریں ہو سکتی ہیں جو شاید ہماری رسائی سے دور ہوں۔ آئیے آج آپ کی توجہ ایک ایسی خبر کی جانب مبذول کروائیں جو بہت سے اعتبار سے انتہائی اہم تھی لیکن ہمیں اپنے میڈیا پر کہیں نظر نہیں آئی۔
یہ خبر اس سال کے ادب کے نوبل پرائز کے بارے میں ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ نوبل پرائز کسے ملا ہے۔ جسے ملا ہے اس کا پس منظر کیا ہے اور اس نوبل پرائز پر کیا تنازع کھڑا ہوا ہے۔ اگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہے تو اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ یہ خبر ہمارے ہاں میڈیا پر نشر نہیں ہوئی۔ غلطی اگر کچھ ہے تو یہ کہ آپ میڈیا پر انحصار کیوں کرتے ہیں؟ چلیں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ خبر کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے۔ اس سال ادب کا نوبل نام، Peter Handke کو دیا گیا ہے۔ یہ صاحب آسٹریا کے ادیب ہیں اور ان کی وجہ شہرت بہت سے حلقوں میں یہ رہی ہے کہ یہ مسلسل اس بات سے انکار کرتے آرہے ہیں کہ بوسنیا کے بحران کے دوران مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ یہ صاحب سرب رہنما مایلو سووچ کو سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے علاقے میں امن کے لیے انتہائی نمایاں خدمات انجام دی ہیں حالانکہ تقریباً تمام دنیا مایلو سووچ کو بار بار سربرانیکا کے قصاب کے نام سے یاد کرتی رہی ہے اور انصاف کی عالمی عدالت میں ان پر جنگی جرائم کا باقاعدہ مقدمہ بھی چلتا رہا ہے۔ بوسنیا میں ہونے والے قتل عام کو یورپ کے تقریباً تمام باضمیر لوگوں نے انتہائی سنجیدگی سے لیا اور اس کی مذمت بھی کی اور مایلو سووچ کو اس بنا پر یورپ میں ایک ناپسندیدہ شخص کی حیثیت بھی حاصل رہی ہے لیکن جب ایک نامور ادیب نے ان کی حمایت کرنا شروع کی اور قتل عام کو افسانہ قرار دیا تو لوگ کچھ پریشان اور کچھ کنفیوز ہو گئے۔ ابھی یہ ابہام چل ہی رہا تھا کہ اسی اثنا میں اس ادیب کو ادب کا نوبل انعام دے دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ لوگ سراپا احتجاج بن گئے۔
پچھلے ایک آدھ ماہ میں یہ یورپ کے سنجیدہ حلقوں کی اہم خبر تھی اور پورے یورپ کے بہت سارے اساتذہ، مصنف اور صحافیوں نے نوبل انعام کمیٹی کو خطوط لکھے اور اس بات پر احتجاج کیا کہ ایک قاتل کا ساتھ دینے والے ادیب کو نوبل انعام کیسے دیا جاسکتا ہے۔ جواب میں نوبل انعام کمیٹی نے صاف صاف کہا کہ ہم نے تو انعام ادبی تخلیق اور کاوش پر دیا ہے اور مصنف کے سیاسی نظریات پہ غور کرنا نہ تو ہمارا کام ہے اور نہ ہم نے یہ کرنے کی زحمت کی ہے۔ جواب میں اس انعام کے ناقدین نے نوبل انعام کمیٹی کو یاد دلایا کہ اس انعام کا مقصد ہمیشہ سے انسانی اقدار کا فروغ بتایا جاتا رہا ہے اور کسی ثابت شدہ قتل عام کا انکار کرنے والا انسانی اقدار کو فروغ دینے کا ذمے دار کیسے ہو سکتا ہے۔
یہاں ہم نے اس بحث کا ذکر چند لفظوں میں کیا ہے لیکن یہ بحث اس سے خاصی زیادہ طویل اور سنجیدہ ہے۔ بہرحال اس کمیٹی سے اس اعتراض کا جواب بن نہیں پڑا۔ یوں انعام متنازع ہوگیا۔ پھر دنیا میں جگہ جگہ ادیبوں نے اس واقعے کی مذمت کی، مذمتی مضامین تحریر ہوئے، بوسنیا میں تو اس پر باقاعدہ احتجاج بھی ہوا لیکن ہمارے میڈیا میں خبر آئی ہی نہیں۔ تو گویا ہمارے لیے یہ سب کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالانکہ اگر یہ خبر آتی تو اس میں بہت سارے معنی پوشیدہ تھے۔ جو اور کچھ نہیں تو کچھ سوچنے سمجھنے کے کام آتے۔ اب ویسے تو اس خبر کے بارے میں بھی بہت کچھ تحریر کیا جا سکتا ہے لیکن فی الحال ہمارا موضوع یہ دیکھنا ہے کہ اس خبر کے نہ آنے میں ہمارے لیے کیا پیغامات ہیں۔ آئیے گنتے ہیں۔
نمبر1 رفتہ رفتہ ہم لوگ کسی بھی واقعے کو فالو کرنا چھوڑ دیتے ہیں چاہے وہ واقعہ گزشتہ صدی کا ایک بڑا اور مظلومانہ قتل عام ہی کیوں نہ ہو۔
نمبر2 ہم اگر بھول بھی جائیں تو کچھ لوگ یاد رکھتے ہیں یعنی انسانیت کا ٹھیکا دنیا میں صرف ہم ہی نے نہیں اٹھایا ہوا۔ اور لوگ بھی ہیں جو اپنا کام کر رہے ہیں۔
نمبر3 اور سب سے اہم بات یہ کہ دنیا میں رفتہ رفتہ اخلاقیات کو آرٹ سے الگ کرکے دیکھنے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ تحریر تو شاندار اور جاندار ہے چاہے وہ سچ ہو یا جھوٹ۔
اس لیے بعض لوگ اس زمانے کو سچ سے آگے کا زمانہ یعنی پوسٹ ٹرتھ پیریڈ کہہ رہے ہیں یعنی یہ ایسا زمانہ ہے کہ جس میں نہ کچھ سچ ہے نہ جھوٹ… جس بات کو آپ جو سمجھیں گویا وہی ہے۔ اور آخری بات وہی کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ خبریں فالو کر رہے ہیں لیکن اصل میں آپ خبروں کو نہیں بلکہ میڈیا کو فالوکر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے سامنے موجود میڈیا جو خبر دیتا ہے وہ خبر ہے اور جو خبر میڈیا کی آنکھ سے دانستہ نادانستہ ذرا بھی اوجھل ہوئی۔ اس کی کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ بوسنیا کی جنگ لڑی جا چکی۔ زمانے پر اپنے نقش چھوڑ چکی۔ اس سے جو مباحثے پیدا ہونے تھے ہوچکے۔ سب ٹھیک ہے لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ ان مباحثوں سے اڑنے والی گرد ابھی تھمی نہیں ہے۔ دنیا چیزوں کو لائٹ لیتی ہے لیکن اتنا بھی نہیں جتنا ہم لیتے ہیں۔ دنیا بھرکے ادیبوں کو اور سوچنے والوں کو کہیں نہ کہیں یہ سب باتیں متاثر کر رہی ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ واقعات اور ان سے پیدا ہونے والے مباحثے مسلمانوں کا ایک مختلف امیج پیش کرتے ہیں۔ مظلومیت کا امیج۔ یہ امیج شاید مین اسٹریم گلوبل میڈیا کے کام کا نہ ہو۔ لیکن کیا ہمارے کام کا بھی نہیں؟؟
یادش بخیر کبھی یہ جنگ یہ قتل عام اور یہ سارے واقعات ہمارے ہاں ایک بہت بڑی خبر تھے لیکن اب ان واقعات سے متعلق بڑی سے بڑی خبریں صرف نظر ہوئی چلی جا رہی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ جس طرح وہ قتل عام ایک بڑی خبر تھا اس طرح اس قتل عام کو بھول جانا یا اس کا انکار کرنا بھی ایک بڑی خبر ہے۔ لیکن یہ یاد رہنا مشکل بھی ہے کیونکہ ہم تو کسی اور جنگ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی جنگ کے چکر میں جو کبھی لڑی ہی نہیں جانی۔ ناطقہ سر بگریباں شاید اسی کو کہتے ہیں۔