سیدنا ابو الدردا

247

مولانا محمد عاطف

آپؓ رسول اقدسؐ کے معروف اور جانثار صحابی ہیں، غزوہ بدر کے دن اسلام قبول کیا۔ آپ کا نام عویمر اور کنیت ابودرداء تھی۔
فضائل ومناقب:
معلم انسانیتؐ کے تمام صحابہ کرام نبی کریم کے ہی فیض یافتہ ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے آپ سے علم کا بہت سا حصہ پایا، امام ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ ابو الدرداءؓ نے آپؐ سے قرآن کریم حفظ کیا۔
جہاں آپ نے سینے میں قرآن کریم کو محفوظ کیا وہیں آپ نے امت مسلمہ پر احسان عظیم فرماتے ہوئے قرآن کریم کو جمع کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔ آپ اس کے عظیم الشان کارنامے کو تاریخ نے اپنے اندر ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: حضور کی رحلت کے وقت جن چار خوش نصیبوں کو جمع قرآن کی سعادت حاصل ہوئی ان میں ابودرداءؓ اول نمبر پر ہیں۔
آپ کی ساری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف تھی۔
علمی وفقہی مقام :
مشہور فقیہ صحابی معاذ بن جبلؓ نے اپنی وفات کے وقت لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ ’’اگر کوئی علمی مسئلہ در پیش ہو تو ان صحابہ کی طرف رجوع کرنا ابو درداء، سلمان فارسی، عبداللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنھم۔ (اسد الغابۃ)
آپ کی علمی حیثیت کی گواہی دیتے ہوئے مسروقؒ فرماتے ہیں: صحابہ کرامؓ کے علوم سمٹ کر جن خوش نصیبوں کا مقدر بنے وہ یہ ہیں: سیدنا عمر، علی، ابن مسعود، معاذ، ابو درداء اور زید بن ثابت رضی اللہ عنھم۔ (تذکرۃ الحفاظ)
آپ کا تعارف امام ذھبی ان الفاظ میں کراتے ہیں: ’’آپؓ اپنے دور میں ملک شام کے عالم وفقیہ اور قاضی تھے‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ)
امام ذھبی نے یہ بات بھی نقل کی ہے کہ جب آپ تشریف لاتے تو لوگ مسائل پوچھنے کے لیے یوں ساتھ ہوتے جیسے بادشاہوں کے ساتھ لوگ ہوتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ)
آپ کی مجتہدانہ شان
آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ نبی علیہ السلام کی موجودگی میں آپ کی اجازت سے اجتہاد فرمایا اور آپ علیہ السلام نے اس کی تردید نہیں فرمائی۔
ترک قرأت خلف الامام کا مسئلہ
آپؓ خود فرماتے ہیں: ’’کسی صاحب نے نبیؐ سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہر نماز میں قرأت کرنی چاہیے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں! بالکل۔ (سنن دار قطنی)
آپ کا جواب سن کر ایک صحابی رسولؓ نے کہا: پھر تو قرأت واجب وضروری ہوئی۔ اس پر نبیؐ ابو درداءؓ کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے اپنے اجتہاد سے آپ کے اس فرمان کی تخصیص کرتے ہوئے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر آدمی باجماعت نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قرأت ہی کافی ہے یعنی مقتدی قرأت نہ کرے تب بھی نماز ہوجاتی ہے۔
نوٹ: (آپ کے اس اجتہا د سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن روایات میں نمازی کو قرآن پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد منفرد ہے مقتدی نہیں)
ہر صاحب عقل اس حدیث کو سامنے رکھ کر سوچ سکتا ہے کہ آپ اجتہاد کے کتنے بلند مقام پر فائز تھے۔
اسفار بالفجر کا مسئلہ
آپ کا نظریہ یہ تھا کہ صبح کی نماز میں اسفار یعنی صبح روشن کرکے ادا کرنی چاہیے۔
آپ کی وفات 32 ھ میں ہوئی۔ (الاستیعاب)