بچوں میں حیا کی تربیت کیسے کریں

171

عبدالحئی ثاقب

حیا مسلم تہذیب کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔با حیا ہونا انسان کو بہت سی ذہنی، جسمانی، اور اخلاقی خرابیوں سے بچاتا ہے۔دیکھا جائے تو انسانی اخلاقی بیماریوں کی دو ہی بنیادی وجوہات ہیں۔ایک بے حیائی اور دوسری انانیت۔اگر معاشرے میں سے یہ دونوں وجوہ ختم ہو جائیں تو برائیوں کی جڑ کٹ جاتی ہے۔حیا کی تربیت سے بنیادی طور پر انسان مرد و زن کے اختلاط کے آداب سیکھتا ہے اور ثانوی طور پر زندگی کی دوسری برائیوں سے اجتناب کرنے کا مزاج اپناتا ہے۔
حیا کی تربیت کا آغاز چار سال کی عمر سے شروع ہوکر سولہ سال کی عمر تک محیط ہوتا ہے۔چار سال سے پہلے بچوں کو خیا کا احساس نہیں ہوتا اس لئے ان کی تربیت کرنا یا سکھانے کے لئے ان پر سختی کرنا بے سود ہوتا ہے۔چار سال سے پہلے کی عمر میں والدین ہی کو بچوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے اورگھر کے ماحول کا بھی ان کے سامنے کوئی ایسا عمل نہ کریں جو حیا کے دائرے سے باہر ہو۔کیونکہ بچے غیرشعوری طور پر اپنے ماحول ہی سے سیکھتے ہیں۔اس لئے اس عمر میں بچے اگر کوئی کام ایسا کر لیں جس سے جسم کے کوئی پوشیدہ آزاد کھائی تھی تو ان پر سختی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔جس چیز کا بچوں میں احساس ہی نہیں ہے اس کو سکھانے اور اس پر سختی کرنے کا کیا فائدہ۔یہ ایک فطری عمل ہے۔یہ دنیا کے ہر بچے کے ساتھ اسی طرح ہوتا ہے۔چار سال سے پہلے کی عمر کے بچوں کو اچھی طرح سمجھیں،اس کے مطابق بچوں کے ساتھ معاملات کرے۔البتہ چار سال کے بعد بچوں میں یہ ابتدائی احساس پیدا ہوتا ہے جس کی اچھی تربیت سے ان میں حیا کا جذبہ پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
کچھ تجاویز حاضر خدمت ہیں۔
1) بیت الخلا کے آداب
۴ سال کی عمر میں بچوں کو لازمی سکھایا جائے کہ وہ بیت الخلا اکیلے جائیں اور بیت الخلا کا دروازہ بند کریں،چاہے کنڈی نہ لگائیں۔اگر بچہ والدہ کی مدد چاہے تو والدہ کو منع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ابھی وہ سیکھنے کے مرحلے میں ہے۔عام طور پر ۵ سال کی عمر تک بچے خود مختاری کے ساتھ بیت الخلا جاسکتا ہے۔ ۵ سال کی عمر میں ہی لازماً بچے علیحدہ اور خود نہائیں۔ ماں اور بچے کا بھی پردہ شروع ہو جاتا ہے۔
جن گھروں میں یہ احتیاط نہیں کی جاتی اور بڑی عمر تک بھی والدین اور بچوں کے درمیان یہ حیا کا رشتہ قائم نہیں ہوتا وہاں قومی امکان ہے کہ بے حیائی پنپ جائے۔اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔اسی طرح ۹سال کی عمر سے زیر جامہ کا بھی بچے خود ہی خیال رکھیں۔خاص طور پر لڑکوں کے کپڑے والدہ کے بجائے لڑکا خود سنبھالے۔
2)کپڑوں کا انتخاب
۷ سال کی عمر سے کپڑوں میں احتیاط بہت ضروری ہے۔بچوں کو باریک اور زیادہ چست کپڑے نہ پہنائیں۔ لڑکیوں کو لڑکیوں کے کپڑے اور لڑکوں کو لڑکوں کے کپڑے پہنا ئیں۔ ادل بدل کر نہ پہنائیں۔ جیسا لباس، آپ چاہتے ہیں کہ بچے بڑے ہوکر زندگی بھر پہنیں ویسا ہی سات سال سے زیب تن کروائیں۔ بچوں کو کپڑوں کا انتخاب خود کرنے دیں اور ساتھ ساتھ تربیت دیں کہ کونسا لباس ان کے لئے بہتر ہے۔گاہے بگاہے اس طرح کی شعوری گفتگو ان کے اندر باحیا کپڑوں کے انتخاب کی صلاحیت پیدا کردے گی۔
3) بستر کے آداب
سات سال کی عمر سے لڑکے اور لڑکیوں کو علیحدہ بستر پر سلائیں۔ یہاں تک کہ والدین کے ساتھ بھی بچے ایک بستر پر نہ سوئیں۔ اگر ہو سکے تو دس سال کی عمر سے کمرہ بھی علیحدہ کر دیجئے۔کمرہ علیحدہ نہ ہو سکے تو بستروں کے درمیان پردہ ضرور حائل کردیں۔ عام طور پر اس عمر سے بلوغت کے مراحل شروع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ بچے اور بچیوں کی ذاتی زندگی کا خیال رکھیں اور اس سلسلے میں بہت سے معاملات کی پردہ پوشی کریں۔
اگر بچے کسی اور کے گھر بھی جا کررہیں تو یہ احتیاط کرے کہ ان کے علیحدہ سونے کا انتظام ہو۔ آج کل کے معاشرے میں اسی بے احتیاطی کی وجہ سے بہت سے بچوں کو خطرناک قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ تھوڑی سی احتیاط آپ اور آپ کے بچوں کی زندگی کو بڑے مسائل سے بچا سکتی ہے۔
4) لڑکپن کی بے تکلفی:
بچوں کی فطرت ہوتی ہے کہ جیسے ہی وہ بڑے ہوتے ہیں اور لڑکپن کے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں تو لڑکے لڑکوں سے اور لڑکیاں لڑکیوں سے دوستی کرنا پسند کرتی ہیں۔الا یہ کہ ان کو مخلوط ماحول دیا جائے۔ ۹ سال کی عمر سے لڑکے لڑکیوں میں آزادانہ دوستیوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔اسی طرح کزن اور اسکول کے دوستوں میں بھی یہ احتیاط کی جائے۔بہتر یہ ہے کہ چوتھی جماعت سے بچوں اور بچیوں کے اسکول علیحدہ ہو ں۔ ورنہ چھٹی جماعت سے تو لازماً بچوں اور بچیوں کو علیحدہ تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور یہ عمل میٹرک تک جاری رہنا چاہیے۔
5)گفتگو کے آداب
بچوں کے سامنے باحیا گفتگو کیجیے۔میاں بیوی کے درمیان بے تکلفانہ گفتگو کا اظہار بچوں کے سامنے ہرگز نہ ہو۔ بچوں کے سامنے بڑوں والی باتیں ہرگز نہ کریں۔ بچوں کو حیا کے بارے میں اگر بتانا ہے تو ان کو انفرادی طور پر سمجھائیں نہ کہ اجتماعی طور پر۔ لڑکیوں کی تعلیم والدہ خالہ یا پھوپھی کرے اور اسی طرح والد لڑکوں کی تعلیم کے لئے چچا یا ماموں میں سے کسی کی ذمہ داری لگائے۔ اس عمر میں حیا کی تعلیم لازمی انفرادی طور پر دینی چاہیے۔ اس کا اہتمام اجتماعی یا کسی تعلیمی ادارے میں ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ جن گھروں میں گالم گلوچ پر بری گالیوں کا رواج ہے وہاں بھی حیا کا جنازہ اٹھنے میں کوئی دقت نہیں لگتا۔ یاد رکھیں بچپن میں ہر لفظ بچوں کے دل پر جاکر ثبت ہوتا ہے اور وہ ان کی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔
6) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال:
آج کے زمانے میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں والدین کی نگرانی بہت ضروری ہے۔ بچے لازمی کمپیوٹر اور موبائل والدین کے سامنے استعمال کریں۔ علیحدگی میں بیٹھنے یا کمپیوٹر پر کام کرنے کی اجازت نہ دی۔ کمپیوٹر اور موبائل میں والدین سرچ انجن یوٹیوب وغیرہ رسٹکٹڈ موڈ (Restricted mode) پر رکھیں۔اسی طرح ٹی وی کے پروگراموں پر (Parental control) بھی لگا کر رکھیں۔ یاد رکھیں یہ زمانہ بے راہ روی کا زمانہ ہے۔کچھ عرصہ پہلے جو کچھ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے آج وہ مواد بچوں کو دیکھنے کے لئے باآسانی دستیاب ہے۔اس لئے احتیاط بہت ضروری ہے۔
7) قرآن کی تلاوت سنائیں:
روزمرہ کے معمولات میں قرآن کی تلاوت سننے کا اہتمام کیجیے۔ خاص طور پر صبح اور شام کے اوقات میں تلاوت قرآن قرآن پاک بار بار سننے سے حیا کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور بچے کو جب بے حیائی کی کوئی بات سننے یا دیکھنے کو ملتی ہے تو وہ اس سے بیزار ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بچہ نماز کا پابند ہوگا تو وہ بھی اس کو فحاشی اور برے کاموں سے روکے گی۔
یہ چند باتیں ہیں جن کی احتیاط کرنے سے امید ہے کہ بچوں کے اندر حیا کا جذبہ بیدار ہوگا اور ہم ایک پاکیزہ معاشرے کی طرف قدم بڑھائیں۔ حیا کی تربیت میں سختی ہرگز نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کو صحیح اور غلط کا شعور دینا چاہیے۔ اسی طرح کسی ایسی حرکت پر جس میں بظاہر بے حیائی جھلکتی ہو بچوں پر ہرگز تنقید نہیں کرنی چاہییے۔ تنقید کرنے سے عموما برعکس نتیجہ نکلتا ہے۔بچے وقتی طور پر تو احتیاط کر لیتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کو آزادی ملتی ہے تو وہ مصنوعی لبادہ اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ برائیوں کو چھپاتے ہوئے رازداری سے مستقل تربیت کرتے رہیے۔ نتائج خدا پر چھوڑ دیجیئے۔ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے رہیے اور خود رول ماڈل بن کر رہیے۔انشاء اللہ باحیا بچے آپ کا مستقبل ہوں گے۔