مجلس احر اراسلام کا90سالہ سفر

221

حکیم حافظ محمد قاسم
تحریک آزادی ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میںلا زوال و بے مثال ایثار وقربانی اور ایمان وعزیمت کی داستانیںرقم کیں ان میں مجلس احراراسلام سر فہرست ہے، جس کی جرأت استقامت بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر درج ہیں، یہ وہ وقت تھا کہ امت مسلمہ میں غلامی کے مسموم اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوںسے جذبہ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا، ایسے سنگین حالات کے پیش نظر اسلام کے مصدقہ اصولوں کے تحت ایک بہادر اور جری دینی عوامی جماعت کی شدید ضرورت تھی، مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقات کے غیور اور جفاکش لوگوں کی اپنی آواز ہو جو غیر مسلم جماعتوں کی شر انگیزیوں اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں کا سد باب کرے، اسی سلسلہ میں 29 دسمبر 1929 کو دریائے راوی کے کنارے لاہور میں تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے رہنمائوں مولانا امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، مولانا مظہرعلی اظہر، سید محمدداوئود غزنوی مولانا ظفرعلی خان، ماسٹر تاج الدین انصاری جیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک نئی انقلابی جماعت کے قیام کا اعلان کیا، عوام نے مسر ت آمیز جذبات کے ساتھ اس کا پر جوش خیر مقدم کیا، بطل حریت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری قافلہ احرار کے اوّلین سالار اور حدی خواں مقرر ہوئے۔
کفن بردوش سرخ پوش مجاہد سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے بغاوت کے لیے شہادت کے گیت چھیڑ کر میدان عمل میں قدم رکھنے کے لیے رواں دواں ہوئے، جبکہ مقابلہ میں انگریز سامراج اپنے تمام تر ظلم واستبداد اور قہر سامانی کے ساتھ تعذیب خانوںکے دروازے کھول دیے گئے، پھانسی کے تختوں، مشین گنوں، لاٹھی چارج، پولیس، فوج، ڈندا فورس سے لیس ان وفا شعار مجاہدوں اور جفا کش رضا کاروںکے استقبال کے لیے موجود تھاِ، ادھر مجلس احراراسلام کے قیام کے اگلے سال ہی قادیانی مرزا بشیرالدین نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرکے کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی سازش کی تو مجلس احراراسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا، قادیانی سازشیں بڑھ رہی تھیں اور قادیان کو مسلمانوں کے لیے نو گو ایریا بنادیا گیا تھا، اس کے توڑ کے لیے مجلس احراراسلام نے قادیان میں سب سے پہلے اپنا دفتر قائم کر کے اس جمود کو توڑا، اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی الوالعزم قیادت میں احرار کا جانثار قافلہ قادیان میں داخل ہوا 11,12,13, رجب 1353ھ، مطابق21,22,23 اکتوبر 1934ء بروز اتوار، سوموار، منگل، قادیان میں 3روزہ احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میںہندوستان کے طول و عرض سے احرار کارکنوں اور علماء کرام مشائخ عظام
نے شرکت کی، احرار کی اس یلغار سے انگریزی نبوت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا، مرزائیت کی غنڈہ گردی ختم ہوئی خصوصاً قادیان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز ہوگیا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تین دن کی تقریروں نے استعماری ایجنٹ قادیانیوںکی چولیں ڈھیلی کر دیں، تحریک پاکستان بڑی شد ومد سے چل رہی تھی اسی اثناء میں قادیانیوں نے بائونڈری کمیشن کے سامنے تقسیم ہند کا ایک علٰیحدہ فارمولہ پیش کر کے گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کی حیثیت متنازع بنانے کی سازش کی، اس سازش وتلبیس کے خلاف مجلس احراراسلام نے پورے ہندوستان میں احتجاج کیا اور بھر پور جدوجہد کی۔ قیام پاکستان کے بعد مجلس احراراسلام نے حکمت عملی اور پالیسی طے کی کہ مجلس احراراسلام عارضی طور پر ملک کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، جبکہ مجلس احراراسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کو تحرک بخشنے کا فیصلہ کیا ۔
1953ء میں مرزائیوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش کے اگلے مر حلے پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے سازباز کرکے پاکستان کو تباہ کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی مذموم کوشش کی تو مجلس حراراسلام کے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کی مختلف مذہبی جماعتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت پر امن طور پر چلائی گئی، جبکہ اس وقت کی حکومت نے 5 مارچ 1953ء کو لاہور میں مارشل لا لگا کر عاشقان ختم نبوت پر بڑی بے دردی سے گولیاں چلائیں، لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، ملتان، ساہیوال کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شمع رسالت کے پروانے لہو میں نہا گئے، بقول شورش کاشمیری مرحوم
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
بظاہر اس تحریک کو کچل دیا گیا لیکن امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا کہ میں تو زندہ نہ رہوں گا، مگر تم دیکھو گے کہ شہیدوں کا خون بے گناہی رنگ لا کر رہے گا، میں اس تحریک کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ٹائم بم فٹ کرچکاہوں جو وقت آنے پر پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچاسکے گا، چنانچہ 1974ء میں ایسا ہی ہوا تحریک تحفظ ختم نبوت بھرپور انداز میں چلی اور قادیانی و لاہوری مرزائیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد غیر مسلم قرار دیدیا گیا، جبکہ 26 اپریل 1984ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روک دیا۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کے تناظر میں آج بھی مجلس احراراسلام قائد احرار پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری، پروفیسر خالد شبیر احمد، عبداللطیف خالد چیمہ، محمد کفیل بخاری، میاں محمد اویس، سید عطاء اللہ شاہ ثالث، قاری محمد یوسف احرار، ڈاکٹر عمرفاروق احرار اور مولانا محمد مغیرہ کی پرعزم اور بے داغ قیادت میں سرگرم عمل ہیں، اور 29دسمبر 2019 ء کو پورے نوّے برس جماعت بنے ہو گئے، اسی دن کی مناسبت سے لاہور، ملتان، چیچہ وطنی، ساہیوال، بوریوالا، چناب نگر، ٹوبہ، کراچی، گجرات، گجرانوالہ، رحیم یار خان، تلہ گنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، حاصل پور، جتوئی، اور دیگر مقامات پر یوم تاسیس احرارکی پر وقار تقریبات پرچم کشائی منعقد ہوئیں جن میں قافلہ احرار کو رواں دواں رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔