پھر تخریب و خلل کی سیاست

123

یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اپنی اصل میں ایک فکری و عوامی جماعت ہے یا الیکٹ ایبلز پر مشتمل سیاسی جتھا۔ بہر حال اس جماعت کی بلوچستان کے اندر حکومت ہے۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں ان سے منسلک 15افراد منتخب ہوئے، بعد میں شمولیتیں ہوئیں۔ اس طرح ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کی شراکت سے حکومت بنی۔ جام کمال خان عالیانی بالاتفاق وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ گئیں۔ حزب اختلاف اچھی خاصی موثر ہے۔ تجربہ کار اور معاملات کو دیکھنے اور سمجھنے والے لوگ اس کا حصہ ہیں۔ اس حکومت کو شاید حزب اختلاف سے کوئی تکلیف نہ ہو کہ حزب اختلاف کا کام ہی اپنے فہم کے تحت حکومت کی ہر اُس پالیسی پر گرفت کرنا ہوتا ہے، جو ان کی دانست میں عوام اور صوبے کے مفاد سے متصادم ہو۔ حزب اختلاف کے بجائے جام کمال کے لیے مشکلات اپنی ہی صفوں سے پیدا کی جارہی ہیں۔ اندرونی رسہ کشی اور ضرب کاری سے حکومت کی توجہ یقینا فرائض سے ہٹ کر اس تخریب کاری پر مرکوز رہتی ہوگی۔ جس سے لا محالہ صوبے اور عوام کے مفاد پر زد پڑ رہی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی فی الواقع ایک فکری، نظریاتی، عوامی جماعت ہوتی تو اندرونی وارداتوں کا تدارک پارٹی آئین و روایات سے کردیا جاتا۔ جام کمال فیصلوں اور اقدامات میں پوری طرح مختار ہوتے تو شاید وہ تخریب کا باب کب کا بند کرچکے ہوتے۔ کابینہ اور پارٹی فورم کے بجائے معاملات کہیں اور زیر بحث نہ لائے جاتے۔ گویا اس جماعت کی نکیل کئی ہاتھوں میں ہے۔ اس بنا جام کمال خان کی مجبوریاں بھی سمجھ سے باہر نہیں ہیں۔ دھونس اور دبائو کے یہ حربے اول روز سے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس نزاع کی بنیاد حقیقی اور اصول کے بجائے گروہی اور شخصی مفاد پر ہے۔ انہدام و سبوتاژ کی سیاست اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی کی جانب سے ہورہی ہے۔ انہیں شاید سرفراز ڈومکی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ جوجام کمال سے اختلاف کی بنا پر اگست 2019ء میں وزارت سے استعفا دے چکے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے نصیب اللہ مری بھی یقینا ان کے حامی ہوں گے۔ جن سے پہلے وزارت صحت کا قلم دان لیا گیا۔ اور اس کے ایک ہفتے بعد (18دسمبر 2019ء) کابینہ سے بھی برطرف کردیاگیا۔ دراصل عبدالقدوس بزنجو کو وزارتِ اعلیٰ کا چسکا لگ چکا ہے۔ اس لذت کے اسیر سردار اسلم بھوتانی اور جان جمالی بھی ہیں۔ سُننے میں آیا ہے کہ طارق مگسی کی دلچسپیاں بھی آرہی ہیں۔ قدوس بزنجو قاف لیگ میں تھے، نواب زہری کے خلاف کھیل میں آگے آگے تھے۔ تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ تیار کرلیا۔ نواب زہری نے دبائو کے تحت نو جنوری 2018ء میں منصب چھوڑ دیا۔ جس کے بعد یہ چھ ماہ کے لیے بلوچستان کا وزیراعلیٰ بن گئے۔ جام کمال خان اور بھوتانی خاندان یہ خاندان ضلع لسبیلہ میں سیاسی حریف ہیں۔ ’’باپ‘‘ بنانے والے طاقتور ہیں کہ جنہوں ان حریفوں کو ایک چھتری کے نیچے اکٹھا کر رکھا ہے۔ چناںچہ وقتاً فوقتاً ذرائع ابلاغ پر حکومتی جماعت میں اختلاف کا شور اُٹھایا جاتا ہے۔ اخبارات میں مختلف ملاقاتوں و دعوتوں کی تصاویر چھپوائی جاتی ہیں۔ دانستہ صوبے کا سیاسی ماحول ابتر پیش کرنے کوششیں کی جاتی ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو علیل ہوئے، 22دسمبر کو کوئٹہ سول اسپتال کے وی آئی پی روم میں داخل ہوئے۔ یعنی اس موقع کو بھی جام کے خلاف استعمال کیا کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت بہت بری ہے۔ حالاں کہ سرکاری اسپتالوں یہ درگت آج سے نہیں ہے۔ اور نہ ایسا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کو اس کی خبر نہ تھی۔ کہا کہ وہ کراچی یا کسی دوسرے بڑے شہر میں بھی علاج کراسکتے تھے۔ یہاں داخل ہونے کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسپتال کے مسائل اُجاگر ہوں۔ بہتر ہوتا کہ عبدالقدوس بزنجو اپنے آبائی ضلع آواران (جو ان کا حلقہ انتخاب بھی ہے) کے ضلعی سرکاری اسپتال سے علاج کراتے۔ اور وہاں کی حالت، ضروریات و مسائل طشت ازبام کرتے۔ ان کے والد عبدالمجید بزنجو بھی یہیں سے منتخب و اہم حکومتی عہدوں پر ر ہے ہیں۔ اور 2002ء سے (ماسوائے 2008ء کے) عبدالقدوس بزنجوکامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے، صوبے کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔ اور اس وقت بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ پیش ازیں بھی اہم عہدوں پر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا ضلع مثالی ہونا چاہیے۔ یوں کسی پر تنقید و گرفت بھی جائز سمجھی جائے گی۔ وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی جیسے آفت آگئی ہو۔ سرکاری اسپتالوں کی مشینری، آلات اور عمارتوں کی مرمت کی مد میں 2کروڑ 8لاکھ کے اضافی فنڈز کا اجرا اور ساتھ ایم ایس، سیکرٹری صحت کو تادیب جیسے
نمائشی اقدامات کی ٹھان لی۔ حالاں کہ سرکاری مشینری مسلسل و پیہم چلتی ہے۔ چناںچہ 26دسمبر کو عبدالقدوس نے ویڈیو بیان جاری کیا۔ جس میں جھول کھاتے ہوئے جام کمال کی تعریف کے ساتھ ان پر وار کی کوشش بھی کی۔
کہتے ہیں کہ جام کمال برے شخص نہیں لیکن وہ اچھے وزیراعلیٰ ثابت نہ ہوسکے۔ لوگ بلوچستان عوامی پارٹی کو عوام کی نمائندہ جماعت نہیں سمجھ رہے، پارٹی کو صرف ایک شخص کی وجہ سے خراب ہونے نہیں دیں گے۔ پھر کہتے ہیں کہ جام کمال کے پاس ویژن ہے لیکن وہ کاموں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے قابل نہیں رہے، نہ چیزوں کو بہتر کرسکے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اللہ کو جواب دینا ہے!!۔ اگلے روز ’’باپ‘‘ کے صوبائی وزراء ظہور بلیدی (وزیر خزانہ)، سردار عبدالرحمان کھیتران (وزیر خوراک)، سلیم کھوسہ (وزیر ریونیو) اور ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے نیوز کانفرنس میں اس کا ایک پھسپھسا ساجواب دیا۔ البتہ ان ورزاء نے اتنا ضرور کہا کہ اسپیکر خود اسمبلی کے 147 سیشنز میں سے محض 17 ہی میں شریک ہوئے۔ اصل میں ان افراد نے بلوچستان کو تماشا بنا رکھا ہے۔ صوبے اور اس کی ایک کروڑ بائیس لاکھ کی آبادی کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ صوبے کے عوام حرص، مفادات اور کھینچا تانی کی سیاست کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ صوبے کے معزز ایوان کی توہین و تضحیک اور یہاں کی روایات و اقدار کا تماشا مزید نہ بنایا جائے۔ یقینا اس تخریبی و گندی سیاست کو رو کنے کی ذمے داری حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حزب اختلاف پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اور سچ یہ بھی ہے کہ جام کمال، کردار، صلاحیتوں، انتظامی، علمی بلکہ ہر لحاظ سے ان خلل ڈالنے والوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔