آخری حصہ
افغان صدر سردار دائود خان پاکستان کے خلاف استعمال کیے گئے۔ اس عرصہ اندر ہی ان کے اقتدار کے خاتمے کے لیے کام ہورہا تھا۔ افغان سرزمین غیروں کے حوالے کرنے کی مکروہ سیاست اپنائی گئی۔ خلقیوں نے ا پنی حکومت کے استحکام کے بجائے پاکستان کے معاملات میں چھیڑخانی شروع کردی۔ چناںچہ خلقی قلیل وقت میں انجام سے دو چار ہو گئے۔ گویا پرچم پارٹی کے اقتدار میں افغانستان کے اندر تقسیم و تفریق کی سوچ راسخ ہوئی۔ ماسکو کی چھتری کے نیچے زبان کی بنیاد پر تعصبات گہرے ہوئے۔ سرخ افواج کے جانے کے بعد گویا حزب اسلامی واحد قوت رہ گئی تھی۔ جس کے خلاف پاکستان، ایران، ماسکو اور سعودی عرب نے گھیرا تنگ کیے رکھا۔ ڈاکٹر نجیب دور کے وزیر دفاع شاہ نواز تنئی کی بغاوت کامیاب ہوتی تو افغانستان کے اندر بہتری اور قومی حکومت کے قیام کا امکان بڑھ جاتا۔ جیسے پچھلی سطور میں ذکر ہوا کہ ڈاکٹر نجیب اللہ کو اپنے لوگوں نے محصور کرلیا، ان کے قتل کی تیاری ہوچکی تھی۔ مجبوراً وہ کابل کے اندر واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے کفیلِ ثانی بھارت نے بھی آنکھیں موڑ لیں۔ بھارت کے سفیر نے اقوام متحدہ کے عملے کی موجودگی میں ڈاکٹر نجیب کو بھارت لے جانے سے انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت دہلی کے مفادات ببرک کارمل گروپ، احمد شاہ مسعود، رشید دوستم وغیرہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کو پناہ دی جاتی تو یہ سب ناراض ہوجاتے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کسی اور ملک چلے جاتے تو یقینا اپنوں کی سازشوںکا بھانڈا
پھوڑتے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے پشتون سیاستدانوں کے چہرے بھی نمایاں کرتے۔ چناںچہ پاکستان نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو پناہ کی پیشکش کی جو انہوں نے قبول نہ کی۔ جنگ و فساد اور انارکی نے پورے افغانستان کو لپٹ میں لے لیا۔ فساد و خرابہ کے عالم میں قندھار سے اُٹھنے والی دینی مدارس کے طلبہ کی تحریک نے رفتہ رفتہ افغانستان کے غالب حصے کو ہاتھ میں لے کر امن قائم کردیا۔ حتیٰ کہ شمال کے سیاسی و عسکری گروہوں کی طرف بھی امن و دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ 19ستمبر 1996ء میں طالبان نے کابل حاصل کیا، تو یہ اعلان کیا کہ انہوں نے افغانستان کی تقسیم کی سازشیں ناکام بنادی ہیں۔ ملک کی وحدت استحکام اور خودمختاری کی خاطر طالبان نے جنرل مالک کے ساتھ مئی 1997ء میں امن کا تحریری معاہدہ کیا۔ جنرل مالک نے جنگی چال چلی اور معاہدہ شکنی کرتے ہوئے 13ہزار طالبان کو محاصرے میں لے کر قتل کردیا۔ گویا ملک کی وحدت اور خود مختاری کے لیے افغان عوام نے طالبان کی صفوں میں جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
8 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر امریکا اور اتحادیوں نے حملہ کیا۔ روسی سامراج کے حواریوں نے امریکا کا ساتھ دیا۔ صبغت اللہ مجددی (جبہ
نجات ِملی)، سید احمد گیلانی (محاذ ِ ملی)، عبدالرب رسول سیاف (اتحادِ اسلامی)، پروفیسر برہان الدین ربانی (جمعیت ِ اسلامی) حامد کرزئی سمیت کئی شخصیات امریکی سامراج کے دست و بازو بنے۔ گلبدین حکمت یار کو ساتھ دینے کا پیغام بھیجا گیا۔ حکمت یار نے نہ صرف انکار کیا بلکہ حزب اسلامی نے امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ قلیل مدت میں طالبان نے بھی اپنی قوت پھر سے یکجا کرتے ہوئے مزاحمت کا آغاز کردیا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ ہم نے سوچا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور فتح کرنا بہت مشکل ہوگا۔ مگر شمال کی قوتوں کے تعاون سے یہ کام ہمارے لیے بہت آسان اور سستا ثابت ہوا۔ حملہ آور امریکی و ناٹو افواج اور ان کے افغان حواریوں نے طالبان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ پاکستان کے جنرل پرویز مشرف رجیم اس سفاکی میں معاون بنی رہی۔ جس کا خمیازہ پاکستان اور یہاں کے عوام کو بھگتنا پڑا۔ امریکی قبضے کے دوران شمال کی قوتوں کا بکھرا شیرازہ پھر سے جڑ گیا۔ امریکی تسلط کے ان انیس سال میں ان کی قوت دو چند ہوگئی ہے۔ شمال کی سیاسی شخصیات اور جماعتوں نے زبان کی بنیاد پر جداگانہ حیثیت نمایاں کیے رکھی۔ حامد کرزئی کی حکومت یا اشرف غنی کی حکومت دونوں میں الگ شناخت و وحدت کی بنیاد پر حصہ دار بنے۔ اپریل 2014ء کے صدارتی انتخابات میں بزور قوت چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ حاصل کیا، عبداللہ عبداللہ اس عہدے پر بٹھائے گئے۔ اس اتحاد نے ستمبر2019ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا۔ فروری 2020ء کے اشرف غنی کے صدارتی نوٹیفکیشن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے متوازی حکومت کا اعلان کیا۔ مارچ کو ’’ارگ‘‘ (ایوان صدر) میں اشرف غنی نے صدارت کا حلف اٹھایا۔ اسی دن عبداللہ عبداللہ نے بھی کابل میں حلف اٹھایا۔ کسی مائی کے لال میں انہیں قانون کی گرفت میں لانا تو دور ان پر تنقید کی جرأت تک نہ ہوئی۔ حزب اسلامی واحد سیاسی قوت ہے جو اس صورتحال پر تنقید کرتی ہے اور اس کو افغانستان کی وحدت اور استحکام کے خلاف عمل کہتی ہے۔ گویا وہ گندی سیاست کہ جس کے آگے گلبدین حکمت یار خم ٹھونک کر کھڑے تھے، جس کا خاتمہ ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت نے کیا تھا، پھر سے شروع ہوئی ہے۔ اور شرم کا مقام یہ بھی ہے کہ اپنی حکومت تو تقسیم ہے اور یہ امریکی و بھارتی تابع فرمان پاکستان کے اندر پشتون نوجوانوں کو مقصد سے ہٹانے کی مکروہ سعی میں لگے ہیں۔
کٹھ پتلیوں کی جانب سے 29فروری 2020ء قطر معاہدے کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کابل کے اندر ایک کے بجائے دو حکومتیں قائم ہیں، تو طالبان کیوں نہ اپنی حکومت کے دوام پر قائم رہیں۔ جو ان سے حکومت امریکا اور ناٹو نے حملہ کرکے چھین لی تھی۔ ان کی خود مختاری کا یہ عالم کہ جب اشرف غنی نے 2014ء میں صدارت کا حلف اٹھایا تو چند ساعت ہی میں امریکا کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط کر دیے۔ جس پر دستخط سے حامد کرزئی اپنی صدارت میں دبائو کے باوجود انکاری رہے۔
حامد کرزئی نے نومبر 2011ء میں لویہ جرگہ بلا کر رائے لی تھی۔ جرگے نے دستخط نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حامد کرزئی جو دو مدت کے لیے افغان صدر رہے ہیں نے 26 دسمبر 2019ء کو کابل میں وائس آف امریکا کی پشتو سروس کو انٹریو میں کہا کہ دو ہزار نو اور دوہزار چودہ کے انتخابات ہمارے ہاتھ میں نہ تھے۔ نہ ہی حالیہ انتخابات کا نتیجہ ہمارے ہاتھ میں تھا جس میں اشرف غنی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ امریکا سمیت چند دیگر ممالک بھی افغانستان کے انتخابات میں دخل رکھتے ہیں۔ جب ہم آزاد ہوں گے وسائل ہمارے اپنے ہوں گے، امن ہوگا۔ تب انتخابات ہمارے اپنے ہوں گے۔ ان انتخابات (جس میں اشرف غنی صدر منتخب ہوئے) میں بھی اختیارات ہمارے پاس نہ تھے۔ ہم خواہ کتنا ہی خود کو دھوکے میں رکھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک افغانستان آزاد نہیں‘‘۔ گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی نے بھی کابل حکومت کے ساتھ 10 ستمبر 2016 کو ہونے والے معاہدے میں بیرونی افواج کے انخلا کے لیے ٹائم ٹیبل دینے کا نکتہ رکھا ہے۔ قطر معاہدے پر دستخط کے دن (29 فروری 2020) کا اعلان ہوا تو گلبدین حکمت یار نے اپنے پیغام میں کہا کہ جلد افغان عوام آزادی کا جشن منائیں گے۔ اس کے برعکس امریکی و بھارتی کٹھ پتلیاں معاہدے کو تخریب کی نظر کرنے کی سعی میں لگی ہیں۔ اشرف غنی کمال بے شرمی پہ اُتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دراصل امریکا طالبان اور داعش سے تعاون کررہا ہے۔ یہ ہے ان کا ظرف کہ خود انیس سال تک امریکی تھالی میں کھاتے ر ہے۔ اب جب امریکا نے دست ِ شفقت اُٹھالیا تو ہزیانی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ بے لوث اور محب وطن افغانوں نے ملک پر بیرونی قبضے کے خلاف بے پناہ مصائب، تکلیفیں اور اذیتیں جھیلی ہیں، بے حساب جانی قربانیاں دی ہیں۔ ملک پر بیرونی قبضہ برداشت کیا اور نہ ملک کی تقسیم کا خواب پورا ہونے دیں گے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو 24 مارچ کو کابل گئے، جہاں انہوں نے امریکی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی کا بتایا۔ شاید افغان سیکورٹی فورسز کے لیے امریکی امداد میں سے کم کی جائے۔ اگرچہ 27مارچ 2020ء کو اشرف غنی نے اپنے معاون خصوصی سابق انٹیلی جنس سربراہ محمد معصوم ستانکزئی کی سربراہی میں اکیس رکنی کمیٹی طالبان سے مذاکرات کے لیے تشکیل دے چکے ہیں۔ آئندہ دنوں ان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔ یقینا با عزت راستہ یہی ہے کہ قطر معاہدے کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ طالبان قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کیا جائے وگرنہ آخری غیر ملکی فوجی کے نکلنے کے بعد طالبان اصولی طور ان کٹھ پتلی متوازی صدور کی بے دخلی اور افغانستان کا زمام کار ہاتھ میں لینے کے حق بجانب ہوں گے۔ حزب اسلامی جیسی بڑی سیاسی قوت ملک کی آزادی، خود مختاری اور وحدت کے لیے طالبان کی سیاسی حلیف ہوگی۔ (ختم شد)