حکومت سندھ کی بلدیہ کراچی سمیت 3 اہم اداروں میں عدم دلچسپی کا انکشاف

94

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت سندھ کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت شہر کے 3 اہم اداروں کے بارے میں عدم دلچسپی کا انکشاف ہوا ہے، جس کی وجہ سے ان اداروں کے اہم امور معطل ہیں۔ حکومت سندھ کے رویے سے متاثر ان اداروں میں کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) شامل ہیں جبکہ کے ڈی اے اور کے ایم سی کے دفاتر سمیت اثاثوں کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے، جس کی وجہ سے دونوں اداروں کے افسران شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی طرح ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ڈیپوٹیشن اور دیگر بنیاد پر خدمات انجام دینے والے 137 افسران و ملازمین کے حوالے سے بھی مقرر کردہ ٹیم ایک ماہ گزر نے کے باوجود رپورٹ تک نہیں دے سکی جس کی بنا پر ایم ڈی اے کے تقریباً تمام امور معطل ہیں جبکہ اپنے پلاٹوں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے الاٹیز کی نیندیں بھی اڑچکی ہیں۔ گزشتہ 4 ماہ سے قانونی وجوہات کی بنا پر پلاٹوں سے متعلق تمام کام ایم ڈی اے میں بند ہے۔ ساتھ ہی مالی بحران کی وجہ سے گزشتہ 4 ماہ سے ادارے کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں ہوسکی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات اور میئر و ڈپٹی میئر کی حلف برداری کے باوجود حکومت کی جانب سے میٹروپولیٹن کمشنر (ایم سی) کا تقرر نہیں کیا جاسکا۔ یہ سیٹ سابق ایم سی سمیع صدیقی کے تبادلے کے بعد سے خالی ہے۔ حکومت نے بلدیاتی اداروں میں فنڈز کے امور پر ایم سی اور میئر کو مشترکہ طور پر اختیارات کا نوٹیفکیشن تو جاری کردیا ہے۔ تاہم کے ایم سی میں ایم سی کا تقرر ہی نہیں کیا گیا جبکہ میئر کے چارج نہ لینے پر ڈپٹی میئر کو قائم مقام میئر کے اختیارات بھی نہیں دیے گئے۔ اسی طرح کے ڈی اے میں 2 ماہ گزرنے کے باوجود نہ تو مستقل ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا ہے اور نہ ہی کے ڈی اے گورننگ باڈی کو حتمی شکل دے کر نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نومنتخب بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے عہدے سنبھالنے کے بعد پرسرار طور پر غیر فعال ہو چکے ہیں۔ حالانکہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت بلدیاتی امور کے حوالے سے حکومت پہلے سے زیادہ بااختیار ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے بلدیہ کراچی کے منتخب نمائندوں کے کام شروع کرنے سے قبل ہی تنخواہوں کی مد میں دیے جانے والے 50 کروڑ روپے کی گرانٹ میں سے 25 کروڑ روپے کی کٹوتی کرکے 25 کروڑ روپے کے ڈی اے کے حوالے کردیے ہیں۔ جس کے باعث بلدیہ شدید مالی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ حکومت کی جانب سے شہری اداروں کے کاموں کی انجام دہی میں عدم دلچسپی پر شہری حیران ہیں۔