افغانستان، امن معاہدہ اور گماشتے

308

منگل بارہ مئی 2020 کو کابل کے ’’دشت برچی‘‘ علاقے میں ایک اسپتال میں داعش کے مسلح دہشت گردوں کا گھْسنا، خون کی ہولی کھیلنا اور افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع شیوہ میں ایک جنازے میں خودکش حملے کے بعد امریکی اور بھارتی کاسہ لیسوں نے داعش گروہ کے بجائے ان حملوں کے لیے طالبان کی تحریک کو مورد الزام ٹھیرانے کا منظم ابلاغی پروپیگنڈا شروع کردیا۔ حالانکہ ان کے خالق، مربی و کفیل امریکا نے متعدد بار کہا کہ یہ حملے داعش نے کیے۔ جبکہ خود طالبان نے دنیا سے ان واقعات کی غیر جانبدارانہ اور وسیع تر تناظر میں تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلاشبہ دنیا کے سامنے اس ہولناکی کی حقیقت عیاں ہے۔ مابعد کابل انتظامیہ کے صدر اشرف غنی نے افغان عوام کی ہمدردیاں بٹورنے اور اپنی نام نہاد حب الوطنی باور کرانے کے لیے طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی پَخ چھوڑ دی۔ حالانکہ افغان اور دنیا کے منصف اقوام و عوام پر یہ امر پوری طرح مترشح ہے کہ امریکا نے 08اکتوبر 2001ء سے افغانستان پر فوجی تسلط قائم کر رکھا ہے۔ اور کرائے کے ٹٹوؤں پر مشتمل فوج تشکیل دے کر ملک کی آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کرنے والوں کے آگے کھڑی کردی۔ یہ جنگ تو انیس سال سے افغان عوام پر مسلط کی گئی ہے۔ ناٹو، امریکی اور کرائے کی افغان فوج اور دوسری فورسز نے کون سا ظلم اور سفاکیت ہے جو اس عرصہ افغان عوام پر روا نہیں رکھا؟۔ ان برسوں میں افغان عوام فضائی، ڈرون اور دوسری عسکری مہم جوئیوں کا نشانہ بنتے آرہے ہیں۔ آبادیاں مسمار کی گئیں۔ بموں کی ماں جیسے بم کا تجربہ اس درماندہ ملک پر کیا گیا۔ یہاں تک ہزاروں افغان عوام خواتین اور بچے شہید ہوچکے ہیں۔ 29فروری 2020ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے بعد گویا امریکا دنیا کے آگے تسلیم کرچکا ہے کہ ان کی حیثیت افغانستان میں جارح اور قابض کی ہے۔ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے قطر کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے آدھے گھنٹے کی ٹیلی فونک گفتگو میں بھی تسلیم کیا کہ طالبان اپنے ملک اور قوم کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
مگر اشرف غنی جیسے چیلے اور وہ جو بزعم خود افغانستان کی دانش اور رہنمائی کے منصبوں پر بیٹھے ہیں، بڑی بے شرمی کے ساتھ آزادی اور حریت کی اس جنگ کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ قابض افواج نے فوجی انخلا کا وقت دے رکھا ہے اور تسلیم کیا کہ پانچ ہزار طالبان قیدی دس مارچ تک رہا کردیے جائیں گے۔ جس کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ اور رفتہ رفتہ امن عمل اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ جائے گا۔ دس مارچ کی تاریخ کب کی گزرچکی ہے اور آقا کی رضا کے برعکس کابل انتظامیہ اس راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ حالانکہ طالبان اپنے پانچ ہزار وابستگان کی فہرستیں جملہ کوائف سمیت حوالے کرچکے ہیں۔ اس دوران کابل انتظامیہ بعض ایسے قیدی بھی رہا کرچکی ہے جنہیں طالبان نے اپنا ماننے سے انکار کیا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کابل قیدیوں کی رہائی کی آڑ میں ان افراد کو چھوڑ چکا ہے جن کی وابستگی داعش گروہ سے ہے۔ گویا افغانستان کے اندر امن اور بین الافغان مذاکرات میں تعطل کی وجہ کابل انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس ہے۔ اشرف غنی کے طالبان کے خلاف بھر پور حملے کی پَخ چھوڑے جانے کو افغانستان کی بعض سیاسی شخصیات نے بھی غیر سنجیدہ عمل کہا ہے۔ اشرف غنی اتنے جری ہیں تو وہ کابل انتظامیہ کے دوسرے صدر عبداللہ عبداللہ سے نمٹتے جو الگ صدارت کی کرسی پر براجمان ہیں اور انہیں قانون کی گرفت میں لاتے۔ شنید ہے کہ دونوں صدور کے درمیان شراکت اقتدار پر اتفاق رائے عنقریب ہونے والا ہے۔ جس میں عبداللہ عبداللہ اچھا خاصا اور موثر حصہ بٹورنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ کسی خیر خواہ نے پوچھا کہ کابل میں اسپتال پر حملہ کس کی کارروائی ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ انہیں میں سے ہیں جنہوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے چپہ چپہ اور قریہ قریہ میں بم دھماکے کیے ہیں۔ پاکستان کے عسکری مراکز، پولیس دفاترو سینٹرز، سیاسی اجتماعات، سیاسی کارکن و رہنماء، مساجد و امام بارگاہوں، خانقاہوں، درگاہوں، گرجا گروں، اسپتالوں، عدالتوں اور ہر شخص اور طبقے کو نشانہ بنایا ہے۔ اور یہی لوگ افغانستان میں کابل انتظامیہ کی این ڈی ایس اور بھارت کے جاسوسی ادارے کے فنڈ پر وجود قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان جاسوسی مراکز میں یہ منصوبہ بندیاں کرتے ہیں انہیں سبوتاژ اور مردم کشی کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ اس شراکت کے نتیجے میں کوئٹہ میں افغان طالبان تحریک کے امیر مولوی ہبتہ اللہ اخوند زادہ کے بھائی مولوی حمد اللہ کو جمعہ کی نماز کے دوران بم دھماکا کرکے قتل کردیا۔ اور یہ گروہ کئی مختلف نوعیت کی سفاک کارروائیاں کرچکا ہے۔ مقصد را اور اْس کی رکھیل این ڈی ایس کا افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرنے والی تحریک کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اس کام کے لیے صحافیوں، ادیبوں اور دانشور وں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جو قابض افواج اور بھارتی اثر و نفوذ اور غلبہ کی خدمت اور جَنبہ داری پر مامور ہیں۔ غیر ملکیوں اور کابل انتظامیہ کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے ہیں، کتابیں لکھوائی جاتی ہیں۔ مختلف نام سے سیاسی تنظیمیں بنائی گئی ہیں جو افغانوں کی مزاحمت کو عوام میں مشتبہ بنانے کے مکروہ پروپیگنڈے کررہی ہیں۔ فی الواقعی اس سارے بندوبست کو بھارتی جاسوسی ادارے کے فنڈز میسر ہیں۔ ان کے ذریعے اخبارات، ٹی وی چینلز اسی طرح سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر منفی ابلاغ کیا جاتا ہے۔ جو بادی النظر میں داعش وغیرہ جیسے گروہ کی حمایت اور کمک ہے۔ طالبان افغانستان میں داعش کے ٹھکانے ختم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ مگر انہیں کابل انتظامیہ، ان کے جاسوسی کے ادارے این ڈی ایس اور را کی پناہ حاصل ہے۔ داعش کا افغانستان میں اب کہیں بھی مضبوط گڑھ نہیں رہا ہے۔ حیف کہ داعش کے کارندوں کو کابل میں ’’انٹیلی جنس سروس گیسٹ ہاؤس‘‘ جیسے مقامات میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ ماہ اپریل کے وسط میں داعش خراسان کے سربراہ عبداللہ اورکزئی عرف اسلم فاروقی نے خود کو افغان فورسز کے حوالے کیا اور کابل حکومت نے بڑی بے شرمی سے دعویٰ کیا کہ اس کمانڈر کو آپریشن کے دوران ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ خود ان کے پاس گیا ہے کیونکہ طالبان ان کے تعاقب میں تھے۔ جنہوں نے افغانستان کے علاقوں زابل، جوزجان، ننگرہار، کنڑ اور دوسرے مقامات میں داعش کی بیخ کنی کی ہے۔ چناں چہ کنڑ کے علاقے میں عبداللہ اورکزئی طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد کابل انتظامیہ کی پناہ میں چلے گئے۔ اسلم فاروقی نے طالبان سے معاف کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔ مگر طالبان نے اس ظالم اور سفاک شخص کی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح صوبہ جوزجان کے ضلع ’’دزراب‘‘ میں داعش کے خلاف طالبان نے آپریشن کیا۔ ان کے چند لوگ حراست میں لے لیے۔ داعش کے سرکردہ کمانڈروں نے کابل انتظامیہ سے فوراً رابطہ کیا جنہوں نے ہیلی کاپٹر بھیج کر ان کمانڈروں کو طالبان کے ہاتھ لگنے سے محفوظ کرلیا۔ ننگر ہار میں داعش پر حملہ کیا تو ایک مرتبہ پھر کٹھ پتلی فورسز داعش کی مدد کو پہنچ گئیں۔ بات یہ ہے کہ دراصل اشرف غنی اور دوسرے گماشتے امن مذاکرات کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان گماشتوں نے انیس بیس سال میں زبان پر ایک بار بھی افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی بات نہیں کی۔ ان گماشتوں اور حواریوں نے افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والے افغان حریت پسندوں کے لیے مسائل ہی کھڑے کیے ہیں۔ بھارتی جاسوسی ادارے را کی رکھیل این ڈی ایس نے کابل سے لے کر پاکستان کے شہر کوئٹہ اور پشاور تک گماشتے پال رکھے ہیں۔ یقینا آنے والے دنوں میں ان سامراجی اور بھارتی گماشتوں کا ضرور احتساب و محاسبہ ہوگا۔