سیاسی کھچڑی

301

2017 میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو ملکی خرابیوں کا ذمے دار ٹھیراتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان کے لیے سیاست کو ممنوع قرار دیا جائے۔ تب ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ ملکی استحکام اور قومی خوشحالی کا تقاضا ہے کہ تمام قائدین کو اقلیم سیاست سے بے دخل کردیا جائے تب ہی بہتری اور بھلائی کی صورت نکل سکتی ہے۔ مگر وزیر اعظم عمران خان کی ہر بات ہی نرالی ہے کہتے ہیں مجھے مائنس کرنے والے خود بھی نہیں بچیں گے۔ گویا عمران خان کو جو لوگ برسراقتدار لائے ہیں۔ ان کا تعلق برآمد ہدایات پر عمل درآمد کرانے سے زیادہ نہیں با الفاظ دیگر عمران خان نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ برآمد ہدایت پر وزیر اعظم بنائے گئے ہیں یہ الیکشن وغیرہ سب ڈھونگ ہے۔ ایسے مواقع پر ہمیں حکیم سعید یاد آجاتے ہیں جنہوں نے 1992 میں کہا تھا کہ بیرونی قوتیں پاکستان پر اپنی مرضی کا وزیر اعظم مسلط کرنا چاہتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان کو مائنس ون کا پیغام کس نے دیا ہے۔۔۔؟ اور موصوف نے جواباً یہ کیوں کہا کہ مجھے مائنس کرنے والے خود بھی مائنس ہوجائیں گے گویا کہیں نہ کہیں سیاسی کھچڑی پک رہی ہے۔ اور یہ کھچڑی بھی کرنل سپر چاول کی ہے جس کی خوشبو باورچی خانے تک نہیں رہتی جوں جوں چاول دم پر آنے لگتا ہے دور دور تک اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مائنس ایک نہیں بلکہ مائنس تین ہوں گے۔ گویا شیخ جی نے تین سال بعد ہماری رائے کو تسلیم کر لیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ مائنس یا پلس کی بات نہیں اس معاملے میں عوام کی رائے بہت ضروری ہے۔ بات تو ٹھیک ہے مگر عوام کی بات کون سنتا ہے۔۔۔؟ مائنس اور پلس کا معاملہ بھی درآمد ہدایات پرمبنی ہوگا حکومت کی رِٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی، صرف تحریک انصاف ہی نے حکومت حکومت کی رَٹ لگائی ہوئی ہے۔ شوگر چیک کرنے والی پچاس اسٹریپ کی پیکنگ کہیں ایک ہزار روپے میں بک رہی ہے اور کہیں 1300روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ مگر کوئی اس لوٹ مار پر ایکشن لینے پر آمادہ نہیں انسولین لگانے والی سرنج 6روپے میں ملتی تھی اب 20،21 روپے میں فروخت ہورہی ہے حالانکہ مہذب ممالک میں سرجیکل کا سامان کم سے کم قیمت پر فروخت ہوتا ہے مگر ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ جو چیز مریض کی مجبوری ہو اس کی قیمت مرضی کے مطابق وصول کی جاتی ہے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان کہتے ہیں کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اُترنے نہیں دیں گے، حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عمران خان کو مدت پوری کرنا پڑے گی۔ بالفاظ دیگر مسلم لیگ مائنس ون کی قائل نہیں اور نہ ہی تحریک انصاف کی حکومت کوگرانا چاہتی ہے تاکہ سونامی مکمل تباہی مچا سکے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سونامی نے مکمل تباہی مچا دی تو پھر حکومت کس پر کی جائے گی۔۔۔؟ شاید خاقان صاحب کی بات ترجمانی کررہی ہے کہ موصوف نے نجومی کی اس بات پر یقین کرلیا ہے کہ عمران خان کے ستارے بہت روشن ہیں۔ اور میاں نوازشریف کے ستارے بھی گردش سے نکل رہے ہیں مگر وزارت عظمیٰ ان کی رسائی سے بہت دور رہے گی البتہ مسلم لیگ پر ان ہی کا کنٹرول رہے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ کی حکومت آگئی تو کیا ہوگا۔۔۔؟ وزارت عظمیٰ ان کی جوتی کی نوک پرآجائے گی حالات و واقعات تو یہی بتا رہے ہیں کہ الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اکژیت میں آجائیں گی۔ اور پھر دنوں مل کر ہی حکومت بنائیں گی۔ جس کی اکثریت ہوگی وزیر اعظم اسی پارٹی کا ہوگا عمران خان وزارت عظمیٰ کے لیے بہت بے تاب تھے ان کی بے تابی کے پیش نظر انہیں وزیر اعظم بنا دیا گیا مگر وہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ مافیا نے انہیں اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے وہ حکومت کیسے کریں پٹرول کے نرخ بھی ان کے قابو میں نہیں ہیں۔