سیاست گری کوئی کھیل نہیں

270

عصر حاضر میں لوگوں نے سیاست کو بھی ایک کھیل ہی سمجھ لیا ہے اور سیاست کے میدان میں داخل ہونے کے لیے صرف ایک نکتے پر اکتفا کرلیا ہے کہ سیاست کی اولین سیڑھی خدمت کی راہ گزر سے ہو کر گزرتی ہے پہلے خدمت کی گلیوں میں سفر کرلیں تاکہ عوام یہ جان لیں کے میدان سیاست میں قدم رکھنے سے قبل جناب نے عوامی خدمت میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور انہیں قوم کے مسائل کا علم بھی ہے اور جناب ایک دردمند دل کے مالک بھی ہیں اور بعض تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے عوامی خدمت کے لیے بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کی فکر میں بڑے بڑے منصوبے شروع کیے اور ان منصوبوں کے وسائل کے حصول کے لیے سابقہ حکمرانوں اور سیاسی میدان کے سورمائوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام سے تعلقات کو بھی ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور موقع پاتے ہی عوام سے مختلف انداز سے امداد کے حصول کی باقاعدہ مہمات چلائیں عوام کی مدد سے بڑے بڑے منصوبے متعارف کرائے لیکن نہ تو عوام کی امداد سے قائم ہونے والے ادارے پوری طرح عوام کو مفت سروس فراہم کرتے دکھائی دیے اور نہ ملک کے غریب عوام کو ان اداروں کے قیام سے پوری طرح استفادہ کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان اداروں کے قیام کی کوشش کرنے والے پوری طرح عوامی وسائل سے فیضیاب دکھائی دیے اور کچھ افراد نے خدمت کا یہ راستہ اپنا کر میدان سیاست میں کو اپنی منزل بنایا کیوں کے شاید ان کی خواہش بھی یہی تھی کہ عوام ان کو عوامی خدمت گار سمجھ کر ان پر بھروسا کرلیں اور ان کی منزل مراد تک ان کی رسائی ہو جائے اور بھولے عوام آج دیکھ رہے ہیں کہ خدمت کے بہت سے راہی بالا آخر اپنی منزل مراد پا کر میدان سیاست میں اپنے جوہر دکھا رہے ہیں اور عوام اب ان کی خدمت کے اصل انداز کو بھی محسوس کررہے ہیں کہ پردہ خدمت کے پیچھے آخر مقصد کیا تھا کیوں کہ بڑے بڑے فلاحی منصوبے کس طرح ان افراد کی ذاتی خدمت کررہے ہیں یہ بھی سب کے سامنے عیاں ہے اور عوام کی ان منصوبوں میں کس طرح مدد کی جارہی ہے یہ بھی مدد کے طلب گار بخوبی جانتے ہیں۔
عوامی خدمت کے ان علم برداروں کی خواہش اگر ملک کے ضرورت مند اور غریب عوام کی خدمت ہی تھا تو انہیں میدان سیاست میں اپنا حصہ ہرگز نہیں ڈالنا چاہیے تھا کیوں کہ سیاسی میدان میں جب ان افراد نے اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کی شخصیت متنازع بن گئی اگر پہلے ان کے چاہنے والے اور ماننے والے ہزاروں تھے تو سیاسی عمل میں شریک ہونے کے بعد ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں خود بخود کمی آتی چلی گئی لیکن لیڈر بننے کی خواہش نے خدمت کو حصول اقتدار کی طلب میں تبدیل کردیا اور جب کوئی فرد جاہ وحشمت کا طلب گار بن جائے تو وہ خوشامدی افراد کے چنگل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور خوشامد پسند افراد ہی اس کی ترقی کو تنزلی میں تبدیل کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اسی لیے دانا کہتے ہیں کہ خوشامدیوں سے ہمیشہ ہو شیار رہنا چاہیے لیکن افسوس کے ہمارے صاحبان اقتدار و اختیار اور عوامی خدمت میں مصروف افراد اپنے ارد گرد خوشامدیوں کا ہجوم جمع کرنے ہی سے خوش ہوتے ہیں اور اس کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں اس طرح نہ تو عوامی خدمت ہوتی ہے نہ مسائل کا تدارک اور نہ ہی کامیابی کا حصول ممکن ہوتا ہے بلکہ ایک جانب تو ذاتی انا کی تسکین ہوتی ہے اور دوسری جانب خوشامدیوں کے ذاتی مسائل حل ہوتے رہتے ہیں اور عوامی خدمت کے بجائے خواص کی خدمت کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ چل نکلتا ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں عوام سے حاصل ہونے والے وسائل اقربا کی خدمت پر اور انہیں نوازنے کے لیے استعمال ہونے لگتے ہیں اور اگر قسمت یاوری کرجائے اور اقتدار مل جائے تو پھر سارے حواری کہیں وزیر کے محترم منصب سے نوازے جاتے ہیں اور کہیں مشیر اور سفیر کی حیثیت سے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ کچھ اقربا کو عوامی خدمت کے اداروں میں مامور کردیا جاتا ہے اس طرح ملک کا سارا کا سارا نظام ہی سب اپنوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور عوام پریشان ہی دکھائی دیتے ہیں۔
عوامی مسائل ہیں کے کم ہی نہیں ہوتے کبھی پٹرول کے نرخوں میں کمی ہوتی ہے اور کبھی یکدم تیز رفتاری سے اضافہ کرکے عوام کا بلڈ پریشر لیول ہی بڑھا دیا جاتا ہے بات یہیں نہیں رکتی بلکہ آٹا، چینی کیا ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور کبھی توانائی کا نہ تھمنے ولا بحران اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ عوام زمانہ قدیم کی طرح موم بتیاں اور لال ٹین تلاش کرنے لگتے ہیں ہمت فین کی طلب میں اضافے کے سبب اس کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ فاسٹ بولر اور اس کے ساتھیوں کو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اب کس طرح بولنگ کرائی جائے کہ مسائل کے سارے کھلاڑی کھڈے لائین لگا دیے جائیں۔ لیکن بظاہر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیوں کہ انصاف پسندوں نے احتساب احتساب کی برق رفتار بولنگ کے ساتھ معاشرے میں ایک عجیب سی ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے ہر طرف ایک بحرانی صورتحال ہے اور کیوں نہ ہو جب عقل کے بجائے جذبات سے کام لیا جائے تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا آج دکھائی دے رہا ہے آگ لگا کر معاشرے میں امن اور انصاف کی بالا دستی قائم نہیں کی جا سکتی اگر مخالفین کہ خلاف بیانات داغ کر اور انہیں پابند سلاسل کر کے عوامی مسائل میں کمی کی جاسکتی ہوتی اور معاشرت اور معیشت کو بہتری کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہوتا تو سیاسی عمل کی کیا ضرورت تھی سیاست سمجھداری اور بردباری کا کھیل ہے اس کھیل میں لفظوں کے باونسر کام نہیں آتے رعونت سیاست کی سب سے بڑی خامی ہے میدان سیاست میں جب بھی کسی سیاست دان نے رعونت کا مظاہرہ کیا اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اسے عوامی سطح پر ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورتحال سیاسی عمل میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور سمجھ دار سیاست دانوں کی ہمیشہ تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال پر بڑی گہری نگاہ ہوتی ہے اور انہی مشاہدات کی بنیاد پر ہمیشہ سیاسی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے لیکن جب مزاج میں رعونت ہو اور مخالفین کی اہمیت اور حیثیت کو صرف نظر کیا جائے تو مصاحبین اس صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو کر موقع سے فائڈہ اٹھاتے ہیں وہ بخوبی اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی نقصان نہیں ہو گا اور جس کا نقصان ہوگا وہ خود بھگتے گا۔
ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نقصان ہوا اعلیٰ سطح کے سیاست دانوں کو ہوا اور ان کے اقتدار کے متوالے ساتھیوں نے پھر نئے آشیاں تلاش کرلیے قومی سیاست اس بات کی آئینہ دار ہے کہ اپنے قائم کردہ اصولوں اور نظریات کی پاسداری نے نہ صرف انہیں ایوان اقتدار سے دور کردیا بلکہ ان کے بہت سے ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے سیاست کا تاریخ کے ساتھ گہرا ربط ہے اور کامیاب سیاستدان ہمیشہ تاریخ سے اکتساب کرتے ہیں اور حقیقت پسندی یہی ہے عوامی مسائل کے سدباب کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلا جائے یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ جب اس کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس کی منفی سوچ کے دروازے خود ہی بند ہوجاتے ہیں اور جب اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اپنے بھی اپوزیشن کا کردار نبھانے کی جستجو میں مگن ہو جاتے ہیں اور یہ لمحہ بڑا بے رحم ہوتا ہے جب لوگ اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہر فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں سیاست کے اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے افراد کو ہمیشہ ہی دوست نما مخالفین کا سامنا رہا ہے۔
عصر حاضر کے صاحبان اقتدار کو اپنے سیاسی معاملات میں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھنڈے دل و دماغ کے سہارے اپنے مخالفین کی تعداد گھٹانے کی شب و روز کوشش کرنی چاہیے اپوزیشن کے خلاف کھولے گئے تمام محاذوں پر برف ڈالنے کی پیش قدمی ہی وقت کی ضرورت ہے سیاسی محاذوں پر لفظی گولہ باری بند کر کہ عوامی بھلائی اور بہتری کے لیے اپوزیشن کی مشاورت سے قومی ترقی کے نت نئے منصوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں انصاف اور احتساب احتساب کے نعروں کے سبب اس قوم کو محرومی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا عوام ہمیشہ پستے رہے اور قومی وسائل سے فائدہ اٹھانے والے بہتی گنگا سے لطف اندوز ہوتے رہے اب یہ نعرے بے وقعت ہوچکے ہیں حکومت اور اپوزیشن کو باہمی مشاورت سے قومی ترقی کی فکر کی ضرورت ہے جب ہی یہ قوم من حیث القوم ترقی سے فیضیاب ہو سکتی ہے کیونکہ ماضی میں بھی قوم کو حکومتوںکی تبدیلی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ قومی دولت کو الیکشن کے نام پر دونوں ہاتھوں سے لٹانے کے اہتمام کیے گئے جس کا نقصان بھی عوام ایک عرصہ سے برداشت کیے جا رہے ہیں۔