حیات بلوچ اور مدثر مینگل کا بہیمانہ قتل

333

نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے درست نشان دہی کی ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کا مسئلہ عسکریت پسندی سے تعلق ر کھتا ہے، شورش ختم نہ ہو، امن قائم نہ ہو، اور مذاکرات نہ ہوں تو یہ مسائل موجود رہیں گے۔ گویا اس آگ میں بے گناہوں کے بھسم ہونے کا احتمال رہے گا۔ حیات بلوچ کسی خبطی و شقی القلب اہلکار کے ہاتھوں پیوند خاک ہو گا تو کوئی معصوم مدثر مینگل کسی سفاک اور بے درد عسکریت پسند کے بم حملے کا نشانہ بنے گا۔ تضادات ہی ہوں گے۔ منفی و خلاف حقیقت ابلاغ ہوگا اور عوام کے سامنے حالات و واقعات کی دھندلی تصویر ہوگی۔ طالب علم حیات بلوچ کے قتل کا سانحہ بہت ہی دردناک تھا۔ جس کا فرنٹیر کور کے ایک اہلکار نائیک شاہدی اللہ نے 13اگست 2020ء کو ضلع کیچ (تربت) میں آبسر کے علاقے میں بہیمانہ طور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس سال آخر کا طالب علم تھا اور کورونا کی وجہ سے چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقے آیا ہوا تھا۔ اس دن فرنٹیر کورکی گاڑی پر بم حملہ ہوا، نتیجے میں تین اہلکار زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی اور قریب کھجور کے باغ میں مشتبہ افراد کے تعاقب میں گھس گئے۔ حیات بلوچ اس وقت اپنے بوڑھے والد اور والدہ کے ساتھ باغ میں ہاتھ بٹانے میں مصروف تھا۔ اہلکار اسے پکڑ کر باغ سے باہر سڑک پر لے آئے۔ اور فریاد و التجائیں کرتے بوڑھے والدین کے سامنے جواں سال حیات پر گولیاں برسادیں۔ چناں چہ رفتہ رفتہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لوگوں نے بولنا شروع کیا۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں اور ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ سینیٹ آف پاکستان، بلوچستان اسمبلی اور سندھ اسمبلی
میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین بولے۔ بجا طور پر متاثرہ خاندان کو انصاف دلانے اور قاتل اہلکار کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ بعض حلقوں نے یہ موقع افواج اور ریاست کے خلاف ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ ایف سی حکام نے ملزم اہلکار کو تحفظ دینے اور اس کی پردہ داری کرنے کے بجائے واقعے کے ذرائع ابلاغ پر رپورٹ ہونے سے پہلے ہی یعنی چند گھنٹوں میں پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ مقتول کے والد مرزا نے تھانے میں ملزم کی شناخت کرلی۔20 اگست کو ملزم نے خود بھی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعترافِ جرم کرلیا۔ جس کے بعد ان پر قتل اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ پولیس تفتیش اور دیگر کارروائی پوری ہونے کے بعد ملزم ایف سی اہلکارجوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ یعنی فیصلہ تربت کی سیشن کورٹ کے سپرد ہوچکا ہے۔ یقینا مقتول حیات بلوچ کا خاندان کیس کی پیروی کرے گا۔ ملزم نے پولیس کو تفتیش میں بیان دیا کہ وہ دو حملوں میں پہلے بھی زخمی ہوچکا ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص مکران میں تعینات ایف سی اہلکاروں پر اس نوعیت کے پے درپے حملے ہورہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں مکران میں اس طرز کے حملوں میں ایک میجر سمیت درجن سے زائد اہلکار جاں بحق ہوچکے ہیں۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیر کور (سائوتھ) میجر جنرل سرفراز علی اور دوسرے حکام کے ساتھ مقتول کے گھر گئے۔ پیش ازیں ایس ایس پی تربت نجیب اللہ پندرانی نے واقعے سے متعلق ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بتائیں۔ ان کے ساتھ مقتول کے بھائی، چچا اور علاقے کے دوسرے معتبرین بھی موجود تھے۔ آئی جی ایف سی نے متاثرہ خاندان کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ فرنٹیر کور بلوچستان سائوتھ کے ترجمان کی جانب سے بدھ 19اگست کو جاری کیے گئے بیان میں بتایا کہ انتہائی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے والے ایف سی اہلکار کو فائرنگ کے فوری بعد باقی اہلکاروں نے قابو کر کے اس سے اسلحہ قبضے میں لے لیا۔ اور بنیادی محکمانہ تفتیش کے بعد آئی جی ایف سی کے حکم پر ملزم اہلکار کو دو گھنٹے کے اندر ہی خود پولیس کے حوالے کیا گیا۔
دیکھا جائے تو حیات بلوچ کے قاتل وہ لوگ اور گروہ بھی ہیں، جن کی پْرتشدد سیاست اور کارروائیوں نے صوبے کو امن کے مسئلے سے دوچار کر رکھا ہے۔ اور اس دن ایف سی کانوائے پر بم حملہ کرنے والے بھی دراصل حیات بلوچ کے قاتل ہیں۔ جنہوں نے 14اگست سے پہلے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں دھماکے کیے۔ کہیں پاکستان کے جھنڈے فروخت کرنے والے اسٹال اور دکانیں اور کہیں فورسز بم دھماکوں کا نشانہ بنیں۔ حیات بلوچ کے قتل کے سانحے سے ایک دن قبل (12اگست) کوئٹہ کے بروری روڈ پر جھنڈے فروخت کرنے والی دکان پر دستی بم حملہ کیا گیا جس سے پانچ افراد زخمی ہوئے، ایک دس سالہ بچے محمد مدثر مینگل کے جسم میں بھی دستی بم کے پرزے پیوست ہوئے، اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملا۔ یہ بچہ قرآن پاک حفظ کررہا تھا، کلی حسنی بروری کا رہائشی تھا، بلوچوں
کے قبیلے مینگل سے تعلق تھا۔ والد خان محمد خود بھی حافظِ قرآن ہیں۔ لیکن اس دس سالہ معصوم بلوچ کو کسی نے یاد نہیں کیا، نہ اس کے قاتلوں پر طعن و تشنیع ہوئی، نہ مظاہرہ ہوا، نہ پلے کارڈز پر مذمت کے الفاظ تحریر کیے گئے، نہ کسی لکھاری کو اس بم دھماکے کی بھنک پڑی، نہ کسی نے اس بچے کے قتل کے سوگ و یاد میں موم بتیاں روشن کیں۔ حالانکہ 14اگست سے پہلے صوبے میں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے وہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ترجمان جیئند بلوچ نے دھڑلے سے قبول کیے۔ حتیٰ کہ 12اگست کا دھماکا بھی تسلیم کرلیا، جس میں اس معصوم بلوچ بچے کی جان گئی۔ یہ خاموشی در حقیقت شدت پسندوں کی عسکریت اور بے گناہوں کے قتل کی حمایت ہے۔ جیسے 10اگست کو چمن میں اینٹی نارکوٹکس فورس کی گاڑی ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنی۔ جس میں اے این ایف کے ایک اہلکار سمیت 6افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، واقعے کے خلاف چمن، کوئٹہ شہر، اور صوبے کے مختلف پشتون علاقوں میں مظاہرے ہوئے۔ ان تمام مظاہروں میں سرے سے ایسا تاثر ملا ہی نہیں کہ جس میں دہشت گردوں کی مذمت کی جارہی ہو۔ گویا ملبہ یا الزام ریاست یا سیکورٹی فورسز پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ یہ واقعہ افغانستان میں بیٹھے پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں میں سے ایک جماعت الاحرار نے قبول کیا۔ دراصل اس دورنگی اور تضادات کی حامل سیاست، صحافت اور انسانی حقوق کے جانب دارانہ دعوئوں نے بھی بلوچستان کو مسائل سے دوچار کیے رکھا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ہوں اور وہ خود بھی بات چیت کی طرف آئیں، بلوچستان کے لوگ قتل و غارت کی سیاست کے بجائے امن چاہتے ہیں۔