اخبارات کا مطالعہ کرنے کے عادی افراد خبروں کی تلاش میں جب اخبارات کی ورق گردانی کرتے ہیں تو جہاں مختلف ملکی مسائل اور معاملات طبیعت میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں وہیں سماجی مسائل بھی افراد کی ہیجان خیزی کا سبب بن جاتے ہیں اور بسا اوقات قاری بے قرار ہو کر اپنا سر پکڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے آج کل ملک کے اخبارات مسلسل زیادتی کے واقعات رپورٹ کررہے ہیں اور ان رپورٹوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا کہ شاید حکومت نام کی کوئی چیز یا اس کی رٹ اب ہے ہی نہیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا حکومت وقت کی اولین ذمے داری ہے اور حکومت نے بھی اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے بے شمار ادارے قائم کررکھے ہیں اب اگر ان اداروں کی موجودگی میں اس قسم کہ واقعات رونما ہونے لگیں تو پھر ان اداروں کی اہمیت اور افادیت پر سوال اٹھتا ہے کہ آخر ان کی موجودگی میں کسی کو کیسے ایسی جرأت ہو جاتی ہے کہ لوگوں کی عزتیں محفوظ نہیں رہتیں اور عوام کا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے یہ کیسے ادارے ہیں کہ جن کی ناک کہ نیچے جرم پرورش پاتا ہے اور پھر مجرم آزادانہ جرم کر کہ فرار ہو جاتے ہیں، جرم واقع ہونے کہ بعد اداروں کی بھاگ دوڑ کیا معنی رکھتی ہے کیا یہ ادارے اس بات کے لیے قائم ہیں کہ جرم وقوع پزیر ہو اور پھر ان کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملے ان اداروں کی کارکردگی ایسی کیوں نہیں کہ جرم کی سوچ ہی کسی کہ ذہنوں میں پروان نہ چڑھے آخر ہمارے پاس ایسے انتظامی افراد کیوں نہیں جو مسائل کا پہلے سے سدباب کرنے کی صلاحیت کہ حامل ہوں ایسے افراد کی کمی کیوں ہے جو ہر طرح کے مسائل سمجھنے کی شد بد رکھتے ہیں ایسے پروفیشنل کیوں نہیں جو کچھ کر دکھانے کا عزم رکھتے ہوں کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہمارے ہاں اقربا پروری اور سیاسی بنیادوں پر منتخب ہونے والے سرکاری ملازم ایسی صلاحیتوں کے حامل ہی نہیں کہ انہیں کچھ اپنی ذمے داریوں کا احساس ہو کیوں کہ اس طرح کے لوگ قومی خدمت کے جذبے کے ساتھ آتے ہی نہیں ان کا مقصد تو ذاتی معاشی مسائل کا حل ہوتا ہے اور یہ لوگ قومی خدمت کے اداروں میں شامل ہونے کے بعد بھی اپنے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے اور کرانے کی سوچ بچار میں مصروف رہتے ہیں یا جن کی نظر کرم پر اداروں میں شمولیت حاصل کرتے ہیں ان کی فرماں برداری انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑتی کہ وہ ملک اور قومی ترقی اور بھلائی کے حوالے سے کچھ سوچ سکیں اور ظاہر سی بات ہے جب سوچ کا دائرہ ہی محدود ہو جائے تو معیار بھی تبدیل ہوجاتے ہیں اور اس کے منفی اثرات قوم کی معاشرتی زندگی میں انتشار پیدا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں معاشرے میں منفی قوتیں اثر انداز ہو کر معاشرے کا امن و چین چھین لیتی ہیں ذخیرہ اندازی، منافع خوری، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، عصمت دری اور اسی طرح کے دیگر واقعات اسی لیے معاشرے میں بہت تیزی کے ساتھ وقوع پزیر ہو رہے ہیں کیوں کہ جرم کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا پورا کا پورا نظام عصری چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے اور جرم کا ارتکاب کرنے والے بلا خوف خطر ہر طرح کا جرم کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور پھر وہ پورا کا پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے جرم کرنے والوں کے حوالے سے طرح طرح کے بیانات اور ان کو قانون کی گرفت میں لانے کے بڑے بڑے اور اعلیٰ سطحی بیانات کہ ذریعے عوام کی بے چینی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اب تمام ہی لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ چند دن لوگ واقعہ کے حوالے سے جذباتی ہوں گے اور پھر ان کی مصروفیات کہاں کسی کے درد کو محسوس کرنے کا موقع دے گی کیونکہ ہر فرد ہی کسی نہ کسی درد میں مبتلا ہے اور اپنے مسائل میں الجھ کر دوسروں کی مشکلات اور پریشانیاں بھلا بیٹھتا ہے اور شاید ارباب اختیار بڑی اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ آخر کب تک لو گ کسی کہ غم میں شریک ہو سکتے ہیں ایک نہ ایک دن مظلوم خود ہی تنہا ہو جائے گا اور تھک کر بیٹھ جائے گا۔
آخر بد انتظامی، نااہلی اور غیر ذمے داری کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور سب سے بڑھ کر ریاست مدینہ کے دعوے داروں سے آج عوام یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ اس ریاست کے خادم اعلیٰ کب عوامی خادم کا رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے تاکہ انہیں عوامی مسائل اور مشکلات سے آگاہی حاصل ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں ان کے مشیروں اور وزیروں نے اب تک بتایا ہی نہیں کہ وہ اس مملکت خداداد پاکستان کے وزیر اعظم کہ منصب جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں اور اب انہیں ذاتی خواہشات کو خیرباد کہہ کر ہر ادارے کو ان کے طریقہ کار کہ مطابق کام کرنے دینا چاہیے کیونکہ ان کے اور ان کے رفقاء کے طرز عمل سے ایسا لگتا ہے اپوزیشن کے خلاف ہونے والے اقدامات کہیں نہ کہیں سے ریگولیٹ کیے جاتے ہیں اور پھر اس طرح اپوزیشن کو حکومت کے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا ہے اب عمران خان کو سب کا پیچھا چوڑ کر عوام کے مسائل اور معاملات پر توجہ دینا چاہیے کیونکہ ان کے سامنے اس ریاست اور اس کے عوام کو نقصان سے دوچار کرنے والے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے اب انہیں ہر اس مظلوم کے دروازے تک پہنچنا چاہیے جس جس کہ ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی ہو کیونکہ عوام کو ان سے بڑی امیدیں ہیں لیکن لگتا ہے ان کے کچھ ساتھی انہیں ایک بڑے لیڈر کے طور پر دیکھنے کہ خواہش مند نہیں یہی وجہ ہے وزیر اعظم صاحب عوام کی داد رسی کے لیے فوری کہیں بھی نہیں پہنچ پاتے اور جب کوئی لیڈر عوام سے دوری اختیار کر لے تو اس کی سیاست ختم ہونے لگتی ہے عوام کے دلوں میں اس کے لیے احترام کا جذبہ کم ہونے لگتا ہے۔
جب حکمرانوں کا عوام کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو جائے تو منفی سوچ رکھنے والے خود ہی یہ جان لیتے ہیں کہ اب ان کے لیے برے دور کا آغاز ہو چکا ہے اور ان کی کوئی بھی خطا انہیں سزا میں جھونکنے کا سبب بن جائے گی اور جب ظلم کی راہوں کے مسافر اپنی اپنی راہوں کی درستی کی طرف دھیان دینا شروع کردیں تو معاشرہ میں برائی کے مراکز میں درستی کے عمل کا آغاذ ہو جاتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حاکم وقت عوام کے لیے درد مند دل رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں پر دھیان رکھتے ہوں، خلفاء راشدین نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ ایک جانب تو عوام سے اپنے رابطے مضبوط رکھے اور دوسری جانب اپنے مقرر کردہ عمال حکومت کے بارے میں بھی مکمل خبر گیری رکھنے کو اولیت دی جاتی تھی۔عمال حکومت کے انتخاب میں ہمیشہ اعلیٰ صفات اور کردار افراد کا تقرر عمل میں لایا جاتا اور پھر ان کی مکمل نگرانی کا نظام اپنا کام کرتا رہتا تھا اگر کسی کہ بارے میں ذرا سی بھی کوتاہی یا غیر ذمے داری کی خبر ملتی فوری اس کے متعلق کارروائی عمل میں لائی جاتی اس طرح پورا کا پورا نظام مثالی بنیادوں پر کام کرتا تھا۔ ریاست مدینہ کا نام لے کر حکومت کرنے والوں کو خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کے نظام حکومت سے استفادہ کرنا چاہیے سیدنا عمرؓ نے جب مسند خلافت سنبھالی اس وقت کوئی بڑا نظام حکومت قائم نہ تھا لیکن آپ نے دس سالہ عہد حکومت میں نہایت وسیع اور منظم نظام تشکیل دیا آپ عمال حکومت کے انتخاب میں ہمیشہ بڑی احتیاط سے کام لے کر مشاورت کہ ساتھ ماہر اور اہل افراد کا انتخاب کرتے ان کو تقرر کے ساتھ ایک مکتوب دیتے جس میں ان کی ذمے داریوں اور اختیارات کی تشریح ہوتی اور وہ مکتوب مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا تاکہ وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کرسکے۔ ہر عہدے دار سے حلف لیا جاتا کہ وہ ترکی نسل کے گھوڑے استعمال نہیں کرے گا باریک کپڑے نہیں پہنے گا چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا دروازے پر دربان نہیں رکھے گا ضرورت مندوں کے لیے اس کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے عمال کے مال و اسباب کی فہرست بنائی جاتی اور پھر اس کا تجزیہ کیا جاتا کہ اس کے وسائل میں کس قدر اضافہ ہوا اور ہونے والا اضافہ سابقہ فہرست سے زیادہ ہوتا تو اس سے باز پرس کی جاتی کہ اس نے کیسے یہ مال بنایا اور آدھا مال ضبط کرکہ بیت المال میں جمع کر دیا جاتا۔
حج کے موقع پر تمام عمال حکومت کو لازم تھا کہ مکہ میں حاضر ہوں اور اس موقع پر عمال حکومت کا باقاعدہ احتساب ہوتا اگر کسی عامل کے بارے میں کوئی شکایت ہوتی تو موقع پر ہی اس سے باز پرس ہوتی اور اگر کوئی عامل کسی بھی قسم کی زیادتی کا مرتکب ہوتا تو اس کو موقع پر ہی سزا دی جاتی یا مزید معاملہ کی تحقیق کہ لیے مسئلہ اہم افراد کے سپرد کر دیا جاتا جو معاملہ کی تحقیق کر کے مسئلہ سیدنا عمرؓ کے سپر کردیتے تاکہ باقی کارروائی عمل میں لائی جائے آپؓ نے اکثر عمال حکومت کو مجمع عام میں سزا دی اس طرح معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے تھے کئی عمال کو فوری موقوف کیا اسی طرح عامل مصر عیاض بن غنم کو بیش قیمت لباس زیب تن کرنے پر اور محل بنانے پر بکریاں چرانے کی سزا دی اسی طرح سعد بن ابی وقاصؓ کو عامل کوفہ نے جب محل تعمیر کروایا اور اس میں ڈیوڑھی بنوائی تو آپ نے اس واقعہ پر فوری ڈیوڑھی میں آگ لگوادی آپ نے نظام حکومت کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے لیے نظام عدل کو بھی بڑی اہمیت دی کیوں کہ آپ بخوبی آگاہ تھے کہ نظام عدل ہی معاشرے کے سدھار اور اس کے استحکام میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے اسی لیے آپ نے اصول مقرر کیا کہ منصب قضاء پر صرف دولت مند اور صاحب علم اور معزز فرد ہی کو فائز کیا جائے کیونکہ کوئی دولت مند فرد کبھی رشوت کی طرف مائل نہیں ہوگا اور معزز اور صاحب علم فرد نہ تو کسی سے متاثر ہوگا اور کوئی اس سے اپنی مرضی سے فیصلہ لے سکے گا۔
آج کے حکمران طبقہ نے ماضی کے تاریخ ساز حکمرانوں کے انداز حکمرانی سے سبق سیکھنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی یہی وجہ ہے کہ آج کا معاشرہ انتشار کا شکار ہے ہمارے ہاں جدید فکر وفلسفہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے ادارے مسائل اور معاملات کی درستی میں اپنا مثبت کردار ہی ادا نہیں کر سکے کیونکہ ان اداروں کے قیام اور نظم و ضبط میں پایا جانے والا سقم مزید نئے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے ذاتی فکر کی بنیاد پر بنائے جانے والے اصول و قواعد میں آئے دن ہونے والی تبدیلیوں نے بھی نت نئے مسائل کو جنم دینے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے موجودہ لمحہ قومی زندگی کے لیے لمحہ فکر ہے ایسے میں ہونا تو چاہیے کہ فوری طورپر قانون سازی کے معاملے میں قرآن و سنت سے استفادہ کیا جائے تاکہ ملکی نظام خالق کائنات کی مرضی اور منشاء کے مطابق ڈھل جائے اور ہر فرد یہ جان لے کہ اس کو اس کے جرائم کی سخت ترین سزاء دی جائے گی جب ہی منتشر معاشرے میں استحکام پیدا ہوگا اور ادارے اور ان کے افراد ذمے داری نبھائیں گے کیوں کہ ہمارے مسائل کا سبب غیر ذمے داری ہی ہے جب ہی معاشرے میں بے چینی کی کیفیت ہے نہ بچے محفوظ اورنہ خواتین کی عزتوں کا کوئی محافظ کہیں مال و اسباب لٹ جاتا ہے اور کہں عزتیں۔۔۔ لٹیروں نے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے اور گر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا کہ ہمارا کمزور نظام حکومت ہی تمام مسائل کا حل پیش کرنے کا اہل نہیں جس کا تمام منفی قوتیں فائدہ حاصل کرتی ہیں فی زمانہ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر نظام حکومت میں اسلامی نظام عدل کے مطابق اصلاحات کی جائیں تاکہ ظلم کا راستہ رک سکے۔
مشہور مسلم حکمران سلطان صلاح الدین ایوبی کا قول معروف ہے کہ جب حکمراں اپنی جان کی حفاظت کو اہمیت دینے لگیں تو وہ ملک اور قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے۔