عبدالقادر بلوچ کی علٰیحدگی اور حافظ حسین احمد کی برہمی

553

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ میں جلسے کے بعد کوئٹہ کے جلسے میں بھی میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کو جن پر برسنا و بولنا تھا بول دیا۔ دیکھا جائے تو باپ بیٹی اور ن لیگ کے دوسرے قائدین کی حالیہ تلخ و تُند اظہار سے کئی لیگی بھی اضطراب میں ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو25اکتوبر کوئٹہ کے جلسہ میں مدعو نہ کرنے اور میاں نواز شریف اور مریم نواز کی فوج اور اداروں کے بعض حکام کے خلاف لب کشائی سے جنرل ریٹارڈ عبدالقادر بلوچ کو حیلہ و جواز ہاتھ آیا اور پارٹی سے مزید وابستگی ختم ہوگئی۔ ن لیگ سے علٰیحدگی ان کی عافیت اندیشی کے بجائے مصلحت کوشی بلکہ قلا بازی کہی جاتی ہے۔ اس کے برعکس شیخ جعفر خان مندوخیل کٹھن اور پُر خار ایام میں مسلم لیگ نواز سے وابستہ ہوئے ہیں۔ شیخ جعفر مندوخیل پرانے لیگی ہیں۔ مسلم لیگ قائداعظم کے صوبائی صدر تھے۔ ن لیگ کا ساتھ تب چھوڑا تھا جب میاں نواز شریف اور ان کا خاندان زیر عتاب تھا۔ پرویز مشرف کی آمریت کے زیر سایہ بننے والی مسلم لیگ قائداعظم کا حصہ بن گئے تھے۔ سینئر پارلیمنٹرین ہیں۔ بدعنوانی کے دھبے سے البتہ جامہ صاف رہا ہے۔ جولائی2018ء کے عام انتخابات میں ژوب سے ہروائے گئے۔ وجہ یہ تھی کہ ان سے مارچ2018ء کے سینیٹ انتخابات اور بعض دیگر حوالوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے۔ ق لیگ بلوچستان پوری کی پوری بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بن گئی مگر جعفر مندوخیل نہ گئے۔ یوں انہیں اسمبلی سے باہر رکھا گیا۔
نواب ثناء اللہ زہری کا تعلق ن لیگ سے واجبی رہا تھا۔ ان کو وزیراعلیٰ بنایا جانا بلا شک ن لیگ کی عطا تھی۔ ن لیگ ہی کی طفیل بھائی نعمت اللہ زہری اور سالہ آغا شہباز درانی کو مارچ 2015 کے سینیٹ انتخابات میں کامیاب کرایا گیا۔ اس الیکشن میں جان جمالی نے ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف کیا۔ اپنی بیٹی کو آزاد حیثیت سے امیدوار پیش کیا۔ وہ کامیاب تونہ ہوسکی مگر ووٹ زبردست حاصل کیے۔ جس کے بعد جان جمالی اور مرکزی قیادت کے درمیان بد اعتمادی و خلیج مزید وسیع ہوگئی۔ گویا مرکزی جماعت نے نواب زہری کی بات اور فیصلے کو فو قیت دی۔ جان جمالی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے سے الگ ہونے پر مجبو ر کیے گئے۔ ایک قابل پارلیمنٹرین کی جگہ راحیلہ درانی کو اسپیکر کے بڑے اور اہم منصب پر بٹھایا گیا۔ اس طرح بعد کے دنوں میں جان جمالی، بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک ہوگئے۔ نواب زہری کی قیادت میں صوبے کے لیگی اراکین اسمبلی نے نواز شریف کے دیرینہ ساتھی سردار یعقوب خان ناصر کو بھی اسی سینیٹ الیکشن میں ہروایا۔ جنہیں 2017ء میں ضمنی انتخاب میں میاں نواز شریف نے اسلام آباد سے سینیٹر منتخب کرایا۔ صوبے میں عدم اعتماد کی تحریک فی الحقیقت نواز شریف پر وار تھا، نہ کہ نواب ثناء اللہ زہری کی صوبائی حکومت کے خلاف۔ عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو نواب زہری نے اس کا سامنا نہ کیا حالاںکہ اتحادی پشتون خوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی ڈٹ کر ساتھ دے رہے تھے۔ نواب زہری اسمبلی اجلاس سے قبل ہی وزرت اعلیٰ سے مستعفی ہوگئے۔ نواب زہری 2018 کے عام انتخابات میں خود ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے جبکہ بھائی نعمت زہری کو آزاد حیثیت سے انتخاب لڑوایا۔ وہ کامیاب ہوئے تو ن لیگ کی دی ہوئی سینیٹ کی نشست سے مستعفی ہوکر تحریک انصاف میں شامل کرائے گئے۔ آغا شہباز درانی کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی شاہ زیب درانی ن لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے۔ مگر شاہ زیب درانی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سمیت کسی بھی مرحلہ ن لیگ کے فیصلوں کی پاسداری نہ کی۔ شہباز درانی مرحوم کے ایک اور بھائی شکیل درانی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں شامل کرائے گئے۔ نواب زہری اسٹیبلشمنٹ مخالف رجحان کی تاب نہیں رکھتے، اس لیے آدھے یہاں تو آدھے وہاں رہے۔ سردار یعقوب ناصر کے بارے میں بھی رائے یہی ہے کہ انہوں نے اپنے بھانجے در محمد ناصرکو باپ پارٹی سے وابستہ کیا۔ تاکہ ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان توازن رکھا جائے۔
نواب زہری پی ڈی ایم جلسے میں شرکت کے لیے دبئی سے کوئٹہ پہنچے۔ جلسہ سے قبل کوئٹہ آنے والے مرکزی قائدین سے ملاقاتیں کیں۔ مریم نواز کو جنرل عبدالقادر بلوچ ائر پورٹ سے سرینا ہوٹل لے آئے۔ اگلے دن اپنی گاڑی میں ایوب اسٹیڈیم پہنچایا۔ ثناء اللہ زہری بھی سرینا ہوٹل میں موجود تھے۔ اور شیخ جعفر خان مندوخیل کی شمولیت کی تقریب میں بھی شریک رہے۔ چوں کہ سردار اختر مینگل اور نواب زہری کے درمیان سیاسی و قبائلی رنجش موجود ہے۔ اس خاطر سردار اختر مینگل نے لیگی قیادت سے انہیں اسٹیج پر نہ بلانے کی درخواست کی تھی۔ نواب ثناء اللہ زہری کا بیٹا سکندر زہری، بھائی اور بھتیجا کالعدم بی ایل کی جانب سے بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے تو نواب زہری نے مقدمے میں سردار اختر مینگل، ان کے بزرگ والد سردار عطاء اللہ مینگل، بھائی جاوید مینگل اور نواب امان اللہ زرکزئی زہری کو نامزد کیا تھا۔ جب وزیراعلیٰ بنے تو ان کے خلاف ایف آئی آر واپس لے لی۔ 2019ء میں بی این پی کے مرکزی رہنماء نواب امان اللہ زرکززئی زہری جو رشتے میں نواب زہری کے ماموں تھے قتل ہوئے تو نواب زہری کے خلاف پرچہ کاٹا گیا۔ خضدار کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نواب زہری اور ان کے بھائی نعمت اللہ زہری کو اس مقدمے سے بری کردیا۔ سردار اختر مینگل کی جانب سے نواب زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے کی ایک وجہ یہ تنازع بھی ہے۔ یعنی ایسی صورت میں نواب زہری کا جلسہ گاہ نہ جانا درست تھا۔ لیگی قیادت نے بھی اس مصلحت کے تحت انہیں نہ بلایا۔ اب جب بات استعفوں تک پہنچ گئی ن لیگ کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ اگر جنرل عبدالقادر مستعفی ہونا چاہتے ہیں تو ہوجائیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اسی لہجے بھی بولے کہ عبدالقادر بلوچ آئینی اور جمہوری بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تو گھر بیٹھ جائیں۔ قادر بلوچ کا کہنا ہے کہ ثناء اللہ زہری کو جلسے کی دعوت نہ دینا ’میری تضحیک ہے، وہ میرے سردار ہیں۔ میں یہ تضحیک برداشت نہیں کرسکتا اور پارٹی میں نہ رہ سکوں گا۔
ثناء اللہ زہری مسلم لیگ ن کی حکومت میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے جب بعض جماعتوں نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو پارٹی نے ان کو مشورہ دیا کہ دباؤ کو خاطر میں نہ لاکر ڈٹ جائیں مگر وہ خاموشی سے استعفا دے کر دبئی چلے گئے اور پھر ڈھائی سال تک پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یہاں اختلافی نکتہ نظر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد کا بھی سامنے آیا ہے۔ حافظ حسین احمد جمعیت علماء اسلام کے لانگ مارچ اور حکومت مخالف تحریک میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی عدم دلچسپی پر سخت رائے زنی کرچکے ہیں۔ چناں چہ اب ا نہوں نے اپنی جماعت اور مولانا فضل الرحمن کو اپنی دانست میں درست سمت اختیار کرنے کی توجہ دلائی ہے۔ حافظ حسین احمد نے قومی اسمبلی میں ایاز صادق کی تقریر کے بعد مولانا فضل الرحمن کے ان کے گھر جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ حافظ حسین احمد کے بقول انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے براہ راست رابطہ کرکے بتایا کہ ایاز صادق کی تقریر کے بعد آپ کا اُن کے گھر جانا جماعتی پالیسی نہیں۔ کیونکہ جے یو آئی نے پی ڈی ایم کے اعلامیہ پر جو دستخط کیے ہیں ان میں نواز شریف کا وہ موقف شامل نہیں جو انہوں نے کوئٹہ جلسے میں پاک فوج کے حوالے سے دیا۔ نہ ہی اس اعلامیہ میں وہ بات شامل ہے جو ایاز صداق نے قومی اسمبلی میں کی۔ اور مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا نہیں بنتا تھا کہ ایاز صادق کو مزید سخت باتیں کرنی چاہیے تھیں۔ مریم نواز اس بات پر خاموش ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن ان کے گھر جارہے ہیں۔ حافظ حسین احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت کی ترجمانی تو کر سکتے ہیں۔ مگر کسی اور جماعت کے ایسے لیڈر کی ترجمانی نہیں کر سکتے جن کے موقف کا بوجھ خود اُن کی اپنی جماعت نہیں اٹھا رہی۔ نواز شریف کو اگر یہ بات کرنی ہی تھی تو وہ پاکستان آکر کریں۔ اگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر نواز شریف کو اتنے تحفظات تھے تو انہوں نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے وقت اپنے ایک ایک رکن قومی اسمبلی کو حق میں ووٹ دینے کا پابند کیوں کیا۔ مسلم لیگ ن کی صورتحال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف نے رضا کارانہ گرفتاری دی اور ڈی جی نیب کو سہولت کار بناکر اپنے معاملات طے کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کا اسٹیج مشترکات پر بات کا متقاضی ہے۔ خیالات و تقریروں کی رنگا رنگی سے اس اتحاد کا مستقبل چنداں روشن دکھائی نہیں دیتا۔ مگر جے یوآئی کا المیہ یہ ہے کہ ان کی اپنی جماعت کے بعض سرکردہ افراد جمعیت کے لانگ مارچ میں اپنے حلقہ اثر کے کارکنوں کو مارچ میں شرکت سے گریز کی تلقین کرتے رہے۔