اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں

299

خبروں کے مطابق گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور قرضہ 1139 ارب روپے کے اضافے کے نتیجے میں 2300 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر توانائی عمر ایوب کے گردشی قرضہ میں کمی کے تمام دعوے ہوا ہونے کا انکشاف ہوا۔ حکام پاور ڈویژن نے بتایا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ بے لگام ہوگیا ہے۔ سیکرٹری توانائی نے بتایا کہ گزشتہ 3ماہ میں 116 ارب روپے گردشی قرضہ بڑھ گیا۔ مالی سال 2019 کی پہلی ششماہی میں گردشی قرضے میں 288 ارب، دوسری ششماہی میں 198 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ مالی سال 2020 کی پہلی ششماہی میں 243 ارب روپے اور دوسری ششماہی میں 294 ارب گردشی قرضہ بڑھا۔
جو بات سمجھ سے باہر ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم سمیت کوئی وزیر و مشیر بھی ایسا نہیں جو مسلسل قوم کو یہ خوش خبری نہ سنا رہا ہو کہ ملک کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔ درآمدات کم اور برآمدات میں کئی گناہ اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے فارن کرنسی اکاؤنٹ میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ حکومت کے وہ اچھے اقدامات ہیں جس کو بنیاد بنا کر کوئی بھی ملک یقینا اس بات کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتا ہے کہ وہ معیشت کے استحکام کی جانب چل نکلا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے، مہنگائی ہوجانے، ٹیکسوں میں اضافہ اور بے تحاشا قرض حاصل کرلینے کی باوجود بھی اگر گردشی قرضوں میں کمی کے بجائے بے قابو ہوگئے ہیں تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ حکومتی برتن میں بڑے بڑے چھید ہی نہیں، غار ہیں جن میں سرمایہ ٹھیر کر ہی نہیں دے رہا۔
موجودہ حکومت کو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس کے اپنے اندر کتنے گھن ہیں جو اس کی اپنی ہی چوکھٹ کو چاٹے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیاں بھی یقینا موجودہ حکومت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بن رہی ہوں گی لیکن آخر کسی بھی جانے والی حکومت کو کتنے برس تک ’’پچھلی‘‘ سمجھا جاتا رہے گا۔ 1947 میں قائم ہونے والی حکومت کو پہلی حکومت سمجھ لیا جائے تو قائدِ اعظم کے بعد جتنی بھی حکومتیں قائم ہوتی رہیں وہ سب ایک دوسرے کی ’’اگلی‘‘ والی حکومتیں ہی تھیں اس لحاظ سے تو سارا قصور پھر سب سے پہلی والی حکومت ہی کے سر جائے گا اور ظاہر ہے کہ پاکستان کا کوئی ایک بھی باضمیر فرد بابائے قوم کو ہر کمزوری کا قصور وار قرار نہیں دے سکتا۔ جس بنیاد پر موجودہ حکومت ن لیگ یا پی پی پی کے ادوار کو قصوروار ٹھیرا رہی ہے اس لحاظ سے تو وہ سب بھی بے قصور ہی قرار پائیں گی کیونکہ ان سب کے پیچھے بھی حکومتوں کے طویل ادوار پرویز مشرف، ضیا الحق، یحییٰ خان اور ایوب خان کے رہے ہیں۔
موجودہ حکومت بھی اپنی آئینی و قانونی مدت کا نصف عرصہ گزار چکی ہے اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان سے قبل کی ہر حکومت پاکستان کو ایک تباہ شدہ حال ملک چھوڑ کر گئی تھی تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ملک کو مائنس میں چھوڑ کر گئی تھی تو کیا وہ اب ’’پلس‘‘ میں آ گیا ہے۔ کیا ڈالر سستا ہو گیا ہے، مہنگائی کا گراف نیچے آیا ہے، اشیائے ضروریہ سستی ہو گئی ہیں، انصاف دہلیز تک پہنچ چکا ہے، بے روزگاری کم ہوگئی ہے، بے چھتوں کو چھتوں کا سایہ مل چکا ہے، نئے نئے کارخانے تعمیر ہو گئے ہیں، 350 ڈیم بن چکے ہیں، تعلیم مفت ہو گئی ہے، امن و امان کی صورت حال پہلے سے بہتر ہو گئی ہے اور حکومتی رٹ ہر ادارے پر حاوی ہو چکی ہے۔ اگر ایسا سب کچھ ہے تو پھر یقینا حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملک ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن اگر سب کچھ اس کے بر عکس ہے تو پھر اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کھڑے مصاحبوں کا جائزہ لینا بہت ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ یہ جو دوستوں اور ہمدردوں جیسی شکل بنا کر کسی بھی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں وہی دراصل ایسے سانپ ہوتے ہیں جن کو مارِ آستین کہا جاتا ہے۔
گردشی قرضوں کا بڑھ جانا، قرضوں کا انبار لگ جانا، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجانا اور روزگار کے دروازے نہ صرف بند ہو جانا بلکہ برسر روزگار کا بے روز گارہو جانا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ یا تو معیشت کی مضبوطی کے دعوے جھوٹے ہیں یا پھر صفوں میں بہت بڑے بڑے ڈاکو چھپے ہیں جو ہونے والے ہر منافع اور آنے والی ہر رقم کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔
اس ساری صورت حال کو سامنے رکھ کر یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت یا تو اپنے ارد گرد جمع مصاحبوں کی جانب سے کسی غفلت کا شکار ہے یا پھر وہ سارے افراد اپنی ذات میں اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے خلاف کسی کارروائی کا عمل میں آنا حکومت کے بس سے باہر ہے۔ شاید ایسا ہے بھی اسی لیے حکومت از خود مافیاؤں کے طاقتور ہونے کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کے مگر مچھوں کو جان لینے کے باوجود بھی ان کے فرار کے سارے راستے کھلے چھوڑے ہوئے ہے۔ اسی لیے ہر اٹھایا جانے والا قدم اور ہر ہر تدبیر جس انداز میں پلٹ پلٹ کر خود موجودہ حکومت کے مدمقابل آ آ کر ڈٹتی جا رہی ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
’’دیکھا اس طاقتور مافیا نے آخر سارا کام تمام کیا‘‘