غلیل بنانے اور چڑیا مارنے کا ورد کب تک

242

قصہ یوں ہے کہ ایک شخص کے گھر بہت خوبصورت اور صحت مند بچہ پیدا ہوا۔ جب بچہ آٹھ دس سال کا ہوا لیکن وہ والدین سے ہر وقت یہی کہتا رہتا کہ مجھے ربڑ دلاؤ میں غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروںںگا۔ والدین بہت سمجھاتے کہ بیٹے اب آپ بڑے ہو گئے ہیں، غلیل کے بجائے کچھ اور لے لیں۔ ان کی اس بات پر وہ پاگلوں کی طرح رونے لگتا اور چیخ چیخ کر کہتا مجھے ربڑ دلاؤ، میں غلیل بناؤںگا اور چڑیا ماروں گا۔ جب والدین نے اس کی یہ کیفیت دیکھی تو وہ اسے نفسیاتی اسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں کے پورے پینل نے بچے کے والدین سے کہا کہ مرض قابل علاج ہے لیکن آپ کو اسے ہمارے پاس داخل کرانا پڑے گا۔ والدین نے ایسا ہی کیا۔ دو ڈھائی برس بعد اسپتال والوں نے والدین کو یہ خوش خبری سنائی کہ آپ کا بچہ اب ٹھیک ہو گیا ہے آپ اسے لے جا سکتے ہیں۔ والدین خوشی خوشی اسپتال پہنچے۔ بچے کو بلایا گیا۔ وہ والدین سے بہت ہی والہانہ انداز میں ملا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اب تم گھر جاکر کیا کرو گے، اس نے کہا اسکول میں داخلہ لوں گا۔ ابو سے کہوں گا کہ مجھے سائیکل دلادیں۔ والدین بچے کی سمجھداری والی باتیں سن سن کر نہال ہوئے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کیا کرو گے، کہنے لگا اسکول سے واپس آکر سائیکل کا پہیہ کھول کر اس میں سے ٹیوب نکالوں گا، ربڑ کاٹ کر غلیل بناؤں گا چڑیا ماروں گا۔ بچے کی یہ بات والدین کے لیے بہت ہی صدمے کا سبب بنی۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ آپ بچے کو چھوڑ جائیں ہم اس کیس کو مزید دیکھتے ہیں۔ بچہ اب جوان ہو چکا تھا اور بے شمار سوالات کے درست جوبات پاکر اسپتال والوں کو یقین ہو گیا کہ اب بچہ ایک نارمل انسان بن چکا ہے۔ والدین کو بلایا گیا۔ والدین نے بھی بے شمار سوال کے جوابات درست پاکر اطمینان کا اظہار کیا۔ پوچھا اب گھر جا کر کیا کرو گے۔ والدین کی خدمت کروںگا۔ اچھی سی ملازمت تلاش کروں گا۔ پھر ان سے کہوں گا کہ اپنے لیے بہو لے آئیں۔ میرے لیے دیگر کپڑوں کے علاوہ شادی کے سوٹ کے ساتھ انڈر وئیر بھی آئے گا۔ بس میں کمرہ بند کر کے اس کی ربڑ نکالوں گا، غلیل بناؤں گا اور چڑیا ماروں گا۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پھر اپنی پرانی بات کو دہراتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’کچھ بھی ہو جائے، میں کسی کو نہیں چھوڑونگا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی فائلیں آ گئی ہیں، آنے والا وقت اور بھی شدید اور سخت ہوگا۔ اس سے کچھ دن قبل بھی وزیر اعظم یہ فرما چکے تھے کہ اب میں ایک مختلف روپ میں نظر آؤں گا اور ملک کی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ پہلے سے بھی کہیں زیادہ سختی سے پیش آؤں گا۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب غلط بھی نہیں کہہ رہے۔ ایسے تمام ملک دشمن عناصر جو ملک کی دولت کو لوٹ کر پاکستان کی معیشت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ماضی بھی ایسے عناصر سے بھرا پڑا ہے، ان کو کسی بھی صورت نہیں بخشنا چاہیے لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس بہانے چند مخصوص افراد کو نشانہ بنانا اور ایسے عمل کا غیر شفاف اور جانبدارانہ ہونا اس کی سب سے بڑی خامی اور احتسابی عمل کے درمیان ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ احتساب کا ہونا، ملک دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی جیسا کام بے شک بہت ضروری سہی لیکن صرف اسی ایک معاملے پر سوئی کا اٹک جانا کہاں کی دانش مندی ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں ہر کام کے لیے ادارے موجود ہیں۔ دیکھا جائے تو ایسے سارے افراد کے خلاف کارروائیاں عمل میں لانا وزارت عظمیٰ کی براہ راست ذمے داریوں میں تو آتا نہیں اس لیے بار بار ایک ہی بات کو ایک ہی انداز میں دہرائے چلے جانا کچھ نامناسب سی بات لگتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارا عدالتی نظام بے شمار نقائص کا حامل ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ نظام کے نقائص دور کیے جانے پر توجہ دی جائے ورنہ مجرم پکڑ تو لیے جائیں گے لیکن نظام میں موجود بڑے بڑے سوراخ اسے باہر نکل جانے میں ہمیشہ مدد فراہم کرتے رہیں گے۔وزیر اعظم سے عرض ہے کہ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ اس لیے ربڑ، غلیل اور چڑیا مارنے سے باہر نکلیں اور اس پر توجہ دیں کہ مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جانے والے عوام کو کس طرح اس عذاب سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔