توہین رسالت… ایک ناقابل معافی جرم

233

یوں تو دشمنان اسلام ذات رسالت مآبؐ کی شان اقدس میں گستاخی و بے ادبی تب سے کرتے چلے آرہے ہیں جب امام کائناتؐ نے وادی فاران میں توحید باری تعالیٰ کا نعرئہ مستانہ بلند فرمایا تھا۔ کل تک جو لوگ آپؐ کو صادق و ادمین پاک باز و مطہر کہتے تھے، دعوت اسلام کی پاداش میں رحمت کون و مکاں کی ذات عالی صفات میں کسی قسم کی خامی تلاش کرنے میں ناکامی کے بعد اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آتے اور دھونس دھاندلی اور کذب و افترا کے ذریعے اپنی آتش حسد بجھانے کا سامان کرتے رہے۔ وہ جس قدر رحمت عالمؐ پر سب و شتم کی زبان طعن دراز کرتے، خالق کائنات بھی امام کائناتؑ کی شان رفعت اور فضائل و مناقب قرآن مجید کی آیات مقدسہ بنا کر اپنے حبیبؐ کی تسکین خاطر کے لیے نازل فرماتا رہتا۔
تاہم کوتاہ بین کفار یہود و نصاریٰ اللہ کے آخری پیغمبر اور تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے جانے والے ہمارے پیارے آقاؐ سے اپنی عداوت و شفاوت کے اظہار کے مختلف روپ دھارتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کی شان قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ایک سے بڑھ کر ایک بلند مقامی کے ساتھ بیان فرما کر قیامت تک کے لیے آقائے نامدارؐ کے مقام و مرتبے کا تعین فرما دیا۔ کہیں والضحیٰ کہہ کر تو کہیں والیل کی زلفوں کا تذکرہ فرما کر آقاؐ کی تعریف بیان فرمائی۔ اگر کسی بدبخت نے آپ کی شان اقدس میں گستاخی کی جرأت کی تو ربّ کائنات نے یٰسینo والقرآن الحکیمo وانک لمن المرسلین o علی صراط مستقیم o کہہ کر آپؐ کے نبی ہونے اور جادہ مستقیم پر گامزن ہونے کی گارنٹی عطا فرمائی اور اعلان عام فرما دیا کہ میرے حبیب مجھے اس قرآن کی قسم جو حکمتوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ کافر بکواس کرتے ہیں کہ آپؐ اللہ کے نبی ہی نہیں میں ربّ کائنات علی الاعلان کہتا ہوں کہ آپؐ نہ صرف ہمارے رسول ہیں بلکہ تمام رسولوں کے امام ہیں۔ نیز یہ کہ آپؐ کسی قسم کی فکری، اخلاقی، معاشرتی، گمراہی کا شکار نہیں بلکہ آپؐ کی طہارت و پاکیزگی اور ذہانت و فطائت، بلند کرداری کی گواہی خود خالق کائنات دیتا ہے کہ آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں اور پوری انسانیت کے لیے اسوئہ حسنہ بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
امام کائناتؑ کا بلند و بالا مقام عظمت ربّ کائنات نے جو بیان فرمایا وہ اگر سارے جن و انس مل کر بھی بیان کرنا چاہیں تو کبھی نہیں کرسکتے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
ترجمہ! کیا ہم نے آپؐ کا سینہ نہیں کھول دیا۔ اور ہم نے آپؐ پر سے آپ کا بوجھ اتار دیا (یعنی نبوت کا بار امانت کماحقہ ادا کروادیا) جس نے آپ کی کمر جھکادی تھی اور ہم نے آپؐ کا ذکر (خیر) بلند فرمادیا۔ (نشراح: 1تا4)
ربّ کائنات نے اپنے حبیبؐ کا ذکر خیر اس قدر بلند و بالا فرمادیا کہ جب تک اذانوں میں موذن اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرتے رہیں گے تب تک آقاؑ کی مصطفائی بھی بلند کرتے رہیں گے۔ لہٰذا کسی کافر ملحد اور دشمن اسلام و خیرالانامؐ خلاف ہفوات بکنے یا شان اقدس میں ہرزہ سرائی کرنے سے نہ تو محبوب ربّ العالمینؐ کی فضیلت و بزرگی میں کوئی کمی آئی نہ قیامت تک آسکتی ہے بلکہ ایسے بدبختوں کے لیے ان شانیک ھوالابتر کی لعنت ربانی ہر دور کے شاتمین و دشمنان رسول کے لیے موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل فرمایا اور قیامت تک کے لیے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا ہے۔ اسی طرح اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی عصمت و عفت کی حرمت و بقا بھی وہی فرمانے والا ہے جس کے لیے وہ ہر دور میں اپنی توحید و رسالتؐ کی حفاظت و پاسبانی کے لیے اُمت محمدیہ میں اپنی اور حب رسولؐ سے سرشار توحید و شمع رسالت کے پروانوں اور پاسبانوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور قیامت تک پیدا کرتا رہے گا۔ صحابہ کرامؓ نے شاتمین رسول ابوخطل کو بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے چھپ جانے کے باوجود جہنم رسید کرکے حرمت رسولؐ کا حق ادا کیا اسی طرح ایک عورت کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب متحدہ ہندوستان میں انگریزی سامراج کے زیر سرپرستی ایک شاتم رسول دھرم پال نے آقاؑ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تو ایک عام محب رسول جو نہ عالم تھا اور نہ ہی فاضل بلکہ ایک لوہار خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بھری عدالت میں اس دشمن رسول کو جہنم رسید کردیا۔ وکیلوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے سزا سے بچنے کی ترغیب دلائی تو اس نے آقاؑ سے اظہار عقیدت و محبت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ زندگی میں ایک ہی تو نیکی کی ہے اسے ضائع نہیں کرسکتا اور انگریز عدالت سے پھانسی کی سزا پا کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوگیا۔ جس پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ ہم تو محض مذاکرے کرتے رہ گئے اور ترخانوں کا بیٹا بازی لے گیا۔ حرمت رسولؐ کی پاسبانی اہل ایمان پر اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر واجب و لازم ہے۔ جیسا کہ خالق کائنات فرماتا ہے۔
نبیؐ اہل ایمان پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔ (احزاب آیت: 6)
یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث کے احکامات کی روشنی میں اہل ایمان نے شروع سے لے کر آج تک نہ کبھی کسی شاتم رسول کو برداشت کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ڈنمارک کے ایک اخبار نے ایک متعصب مصنف اور ایڈیٹر کے ایما پر بعض کارٹونسٹوں کے بنائے گئے خاکے شائع کرکے اپنی اسلام دشمنی اور آقاؑ سے یہود و نصاریٰ کے دیرینہ حسد و بغض اور عناد کا کھل کر اظہار کیا جن میں رحمت عالمؐ کے خاکے بنائے اور یہ ظاہر کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی کہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ امام کائناتؐ دنیا میں دہشت گردی کے بانی ہیں۔ اس کی پیروی فرانس کے اخبار نے کرکے ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔ ان دل آزار خاکوں کو ناروے، جرمنی، فرانس اور بعض دیگر یورپی اخبارات نے مکرر اشاعت کے ذریعے طے شدہ منصوبے کے تحت دنیا بھر کے غیور مسلمانوں کی دینی غیرت کو چیلنج کیا تھا۔
مسلم عوام نے ان ممالک کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے رحمت عالمؐ سے اپنی سچی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ آئمہ کرام نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ ایسے تمام شاتمین رسول جنہوں نے کارٹون بنائے اور ترغیب دینے والا بدباطن مصنف اور شائع کرنے والے اخبارات کے ایڈیٹر و مالکان سب کے سب واجب القتل ہیں۔
پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے ناتے دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز ہے۔ اسے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دشمنان دین و ملت کے خلاف ٹھوس اقدامات اختیار کرنے چاہئیں۔ عوامی سطح پر تو تمام مسلمان ان مذموم کارٹونوں کی اشاعت پے رنج و غم کی تصویر بنے سراپا احتجاج ہیں تاہم حکومتی سطح پر جس سخت موقف کی توقع کی جارہی تھی ہماری حکومت اس سے قاصر رہی ہے۔ جس سے یہ تاثر ابھرنا فطری امر ہے کہ ہماری موجودہ حکومت کو چاہیے کہ حکومت ان تمام ممالک سے جہاں ایسے خاکے شائع ہوئے فی الفور سفارتی تعلقات منقطع کرتی اور ان کی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جاتا۔ تاہم ابھی تک کوئی موثر کارروائی نہ ہونا ہمارے حکمرانوں کی غیرت ایمانی کا بھی امتحان ہے۔
ہم ان سطور کے ذریعے تمام مسلم ممالک بالخصوص اپنی حکومت کے گار پردازوں کو یہ پیغام دیں گے کہ نہ صرف ظالم و بدطن یہود و نصاریٰ سے پینگیں بڑھانے کے بجائے مسلم ممالک کے ساتھ مل کر مضبوط بلاگ قائم کیا جائے اور خود انحصاری کے ذریعے ان کی محتاجی ختم کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو تمام تر وسائل سے نوازا ہے، اور ایک سے ایک اعلیٰ دماغ موجود ہے جو امت مسلمہ کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں کفار کی محتاجی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ مسلم ممالک اپنی علیحدہ اقوام متحدہ قائم کریں اور مضبوط تجارتی و اقتصادی تعلقات کے قیام کے ذریعے ایک دوسرے کو تقویت پہنچائیں۔ عرب ممالک اپنے مالی ذخائر امریکی و یورپی بینکوں سے نکلوا کر مسلم ممالک میں رکھیں تا کہ وہ خوشحال ہوں۔
کس قدر بدنصیبی کی بات ہے کہ یہود و نصاریٰ ہمارے وسائل اور دولت پر قبضے کے ذریعے ہمیں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور ہم ان کے دست نگر بنے فوجی و اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم تمام اسلامی ممالک بالخصوص حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں قانون سازی کرتے ہوئے شاتمین رسول کو مقدمات چلا کر عبرتناک سزائیں دیں۔ اسی طرح کسی بھی کافر ملک کی جانب سے کسی مسلم ملک پر حملہ عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے اور سب مل کر اس جارح ملک کے خلاف مشترکہ کارروائی کریں۔
یہود و نصاریٰ کبھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔ یہ ہمیشہ سے اسلام و اہل اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے آئے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرتے ہوئے باہمی دفاعی و اقتصادی سائنسی، تعلیمی، ثقافتی و تجارتی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔
عامتہ المسلمین کی بیداری اور عظمت رسولؐ کے لیے احتجاجی سرگرمیاں یقینا ان کے دین اور رحمت عالمؐ سے والہانہ وابستگی محبت و عقیدت کا مظہر ہیں تاہم جوش میں ہوش نہیں گنوانے چاہئیں۔ چوں کہ اپنے ملکی و عوامی مفادات کی تباہی و بربادی کسی صورت اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتی بلکہ اس طرح ہم دشمنان اسلام کے ہاتھ مضبوط کررہے ہوتے ہیں۔ محمد کریمؐ کے غلام اپنے نبی کی حرمت و عزت سے بڑھ کر کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ مسلم ممالک تیل کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سپلائی بند کردیں تو یہ سب کے سب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ عالم اسلام احتجاج سے زیادہ ہر شعبہ حیات میں خود انحصاری کے ذریعے ان دشمنان اسلام کو لگام دے سکتے ہیں وگرنہ عالم کفر اسی طرح ہمارے دینی جذبات پر چرکے لگاتا رہے گا اور ہم سوائے احتجاج، توڑ پھوڑ اور زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کرسکیں گے۔