دوستی کیا ہے؟ ایک مثالی اور سچا دوست ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ہر برے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔ دنیا میں کچھ لوگوں سے آپ کی دوستی بنا کسی مفاد اور فائدے کے ہو جاتی ہے اور کچھ لوگ آپ سے دوستی صرف فائدے کے لیے ہی کرتے ہیں۔ ایسے دوست ہمیشہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ نقصان اگر دولت اور چیزوں کا ہو تو دینے والے کو معاف بھی کیا جا سکتا ہے مگر اگر اس دوستی سے آپ کی شناخت پر چوٹ لگے تو آپ تو کیا دنیا والے بھی اس دوستی یا دوستی میں چھپی دشمنی کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسی ہی دوستی کی مثال ہم نے اس وقت بھی دیکھی تھی جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں نے آزادی کے لیے ہاتھ ملایا تھا تاکہ مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے بھگا سکیں مگر ہندوؤں نے مسلمانوں کے پیٹھ پیچھے انگریزوں سے جائز اور ناجائز اختیارات حاصل کرنا شروع کر دیے اور جب مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ ہوا تو نہ صرف انہوں نے ہندوؤں سے الگ ہوکر ایک تنظیم بنائی بلکہ ایک الگ ملک کی بھی خواہش کا اظہار کیا مگر جو ہندو دوستی کی آڑ میں دشمنی نبھارہے تھے فوراً ہی اپنی اصل صورت میں آگئے اور انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی اور جو کچھ آزادی کے وقت مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا وہ تو ہم سب پاکستانی بخوبی جانتے ہیں۔ آج تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے مگر اس بار ہمارا مقابلہ ہندوستان یا پھر کسی اور سے نہیں بلکہ پاکستان کے سب سے قریب اور ہر دل عزیز دوست چین سے ہے۔ آپ چین کا نام پڑھ کر مجھے پاکستان دشمن نہ سمجھیے گا میں اسے دلائل سے واضح کروں گی اور فیصلہ آپ پر چھوڑتی ہوں۔
یوں تو چین نے پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی میں اس کو اپنا لیا تھا اور اس وقت چین جیسے بڑے اور پرانے ملک کی پاکستان کو ضرورت بھی تھی اور اس احسان کو پاکستان نے کئی بار اتارا بھی ہے چاہے وہ امریکا کے سامنے چین کا ساتھ دینا ہو یا پھر ہندوستان اور چین کی جنگ میں چین کے ساتھ کھڑے ہونا۔ یا امریکا اور چین کی دوستی کرانا ہو۔ چین نے بھی پاکستان کی کئی اہم مواقع پر مدد کی ہے کبھی فنی تو کبھی فو جی اور کئی اہم مسائل میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے چاہے وہ انڈیا پاکستان کی جنگ ہو یا عالمی سطح پر کشمیر کا مسئلہ ہو۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ پاکستان چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور لازوال ہے۔ کئی عشروں سے ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ جب بھی پاکستان کے حکمران حلف اٹھاتے ہیں تو پہلے چین کا دورہ کرتے ہیں ہمارے حکمران چین کا دورہ کریں یا چین کے حکمران پاکستان کا اس موقع پر کئی بلین ڈالرز کے کئی اہم معاہدوں پر دستخط کیے جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان تجارت کئی ملین ڈالر بڑھی ہے۔ پاکستان کے جوہری انفرا اسٹرکچر میں بھی چین کا ایک اہم کردار رہا ہے جب پاکستان پر پوری دنیا سے دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اپنے جوہری انفرا اسٹرکچر کو بند کرے اس وقت بھی چین ہی نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔ پاکستان اور چین نے بہت سے فوجی اور مختلف قسم کے ہتھیاروں کے منصوبوں میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے جیسے جے ایف 17 تھنڈر فائٹر، درزی اور نیول شپ کے بنانے میں۔
کئی سال پہلے ایسے ہی تجارتی سلسلے میں سی پیک منصوبے پر دونوں ممالک کے دستخط ہوئے تھے کہنے کو اس منصوبے کو 2020 میں مکمل ہونا تھا مگر شاید اس کو بھی کورونا ہو گیا لہٰذا اب تک مکمل نہ ہو پایا۔ اس پر نجانے کتنے ارب ڈالرز لگ چکے ہیں۔ اس اقتصادی راہداری سے پاکستان کا مستقبل روشن ہوگا یا پھر معاشی غلامی کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا تو پتا نہیں۔ اس سی پیک کی وجہ سے جو چین نے پاکستانی سیاستدانوں کو اور سیاستدانوں نے عوام کو سنہرے خواب دکھائیں ہیں وہ پورے ہوں گے یا نہیں، ان سے کب اور کتنا فائدہ پاکستان کو ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر چین نے پاکستان کا اعتماد حاصل کرلیا ہے۔ گھر میں لہسن ادرک سے لے کر گھر میں رکھا ٹی وی، لیپ ٹاپ اور دوسری ہر طرح کی مشینری چین سے آرہی ہے۔
جہاں تک بات ہے سویلین امداد کی تو ماہرین کے مطابق چین اور پاکستان کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔2005 میں جب پاکستان میں زلزلہ آیا تھا تو غیر ملکی امداد میں سرفہرست چین کا نام تھا۔ جن کے بھیجے ہوئے ہیلی کاپٹرز اور متعلقہ مشینری، ڈاکٹرز اور دوسری ماہرین نے امدادی کاموں کی شروعات کی۔ اسی طرح جب پاکستان میں سیلاب آیا تو بھی چین سب سے آگے تھا۔ مجموعی طور پر چین کی امداد مغربی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی جس طرح عالمی سفارتی لحاظ سے ہمیشہ اسرائیل اور امریکا ایک دوسرے کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح چین اور پاکستان بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
یہ قیمتی دوستی کی اپنی جگہ ہے مگر ہم اپنی شناخت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہماری شناخت ہے کیا؟ اور وہ ہے اسلام ہمارا مذہب ہماری پہچان جب ہم یہ کہتے ہیں کہ: پاکستان کا مطلب کیا؟؟. لا الہ الا اللہ تو یہ الفاظ بولنے میں ہی بھاری نہیں لگتے بلکہ ان الفاظ کے بولتے ہی پوری دنیا سمجھ جاتی ہے کہ پاکستان کیا ہے اور اس کی شناخت اور رہنما کون ہے اور دنیا میں کوئی بھی ہماری اس شناخت کو اپنے پیروں تلے کچلنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدلے میں نقصان اٹھائے گا۔ جیسے ہی اسلام ہماری شناخت بنتا ہے دنیا کے تمام مسلمان ہمارے اپنے بن جاتے ہیں اور ہمارے لیے ایک ہی اہمیت رکھتے ہیں۔
چین کے ایغور مسلمان بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ ایغور کا تعلق ترکی سے ہے۔ جنہوں نے اب سے کئی سال پہلے ارطغرل کے دور میں چین آکر بسیرا کیا تھا تاکہ وہاں پیار و محبت سے اسلام پھیلا سکیں مگر کچھ سال سے چین کی حکومت نے اپنے لاکھوں لوگوں کو فرضی رشتے دار بنا کر زبردستی ان مسلمانوں کے گھروں میں بھیجنے کا آغاز کیا۔ وہ فرضی لوگ ان کے گھر میں ان کے ساتھ رہ کر ان پر نظر رکھتے ہیں اور جہاں ان کو شک ہوتا ہے کہ یہ مضبوط مسلمان ہیں اور اپنے مذہب سے آسانی سے دور نہیں ہوں گے ان کو ری ایجوکیشن کیمپ بھیج دیا جاتا ہے اس سلسلے میں چین کی حکومت نے ایک پروگرام بھی بنایا جس کا نام ’’پیر اب اینڈ بکم فیملی‘‘ رکھا گیا جس کا مقصد ایک دوسرے کی تہذیب کو جاننا اور سمجھانا بتایا گیا۔ جبکہ اس کا اصل مقصد چین کے مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دور کرنا ہے۔ چین نے بار بار کہا کہ ان کیمپس میں لوگوں کو تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے تاکہ وہ دہشت گردی سے دور رہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو ان کیمپس میں لاکر قیدیوں کی طرح تالوں میں بند رکھا جاتا ہے اور ان کے انسانی حقوق چھین کر تشدد کیا جاتا ہے۔ ان مسلمانوں کو زبردستی اسلام کے خلاف کیا جارہا ہے اور جو اس تشدد کے باوجود بھی نہ مانے تو اس کو بہت بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔ مساجد کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ دوسرے مسلمان ممالک ناصرف خاموش ہیں بلکہ چین کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ جب مسلمانوں ہی کو اپنی شناخت کے مٹ جانے کا غم نہیں تو دوسرے مذہب کے لوگ کیوں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔
عمران خان صاحب سے درخواست ہے کہ صرف ارطغرل ڈراما پاکستانیوں کو دکھانے سے پاکستانیوں کو ان کے مذہب اور شناخت کے قریب نہیں کیا جاسکتا بلکہ عمران خان صاحب کو خود بھی چین کے ساتھ بیٹھ کر چین کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہوگی مگر افسوس عمران خان اس مسئلہ پر بات کرنے سے بھی کتراتے نظر آتے ہیں۔
جب برطانیہ کے بڑے اور پرانے اخبار ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ کے جرنلسٹ نے ان سے زور دیکر یہ بات پوچھی تو خان صاحب کشمیر کے مسلمانوں اور ایغور کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے معیار کو سمجھاتے نظر آئے اب ہم مسلمان ہوکر دوسرے مسلمان کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے ان کے اوپر ہونے والے مظالم کی پیمائش کر کے آواز اٹھائیں گے کہ کب سے اور کتنا ظلم ہوا ہے۔ عمران صاحب کہتے ہیں کہ چین ہمارا بہت پرانا دوست ہے اگر واقعی چین ہمارا دوست ہے تو ہماری درخواست کو ضرور سمجھے گا اور ہماری شناخت کو دہشت گردی کا نام دے کر مٹانے کی کوشش نہیں کر ے گا۔
دوستی پہ ہم قربان سہی دوست پر ہم کو ناز
پر مت بھولو اپنی پہچان
دوست وہی جو ساتھ کھڑا ہو اور ساتھ چلے
نہ کہ مٹادے دوست کی پہچان