وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کی جانی چاہئیں جن سے ٹیکس ادا کرنے والے اور قانون کی پابندی کرنے والے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچ سکے، صرف روشن خیال، شفاف، فعال اور موثر پالیسیوں سے ہی عوام کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے جبکہ اسلحہ لائسنس کے اجرائ، بلٹ پروف گاڑیوں کی اجازت، سیکورٹی کمپنیوں کے معاملات اور ای سی ایل کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کے لئے چار کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے ان سے سات روز میں رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
وہ منگل کو وزارت داخلہ میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ، بلٹ پروف گاڑیوں کی اجازت، اسلحہ لائسنسوں کے اجراءاور سیکورٹی کمپنیوں سے متعلقہ موجودہ پالیسیوں کے جائزہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ اجلاس میں سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل سیکرٹری، نیکٹا و نادرا کے حکام، کمشنر اسلام آباد نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے آغاز میں وزیر داخلہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سابق ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا غلط استعمال کیا جاتا رہا۔ اس میں سے افراد کی مرضی اور خواہشات کے مطابق لوگوں کے نام نکالے اور ڈالے جاتے رہے، ای سی ایل میں نام ڈالنے کے لئے ایک مناسب نظام وضع کیا جانا چاہیے جبکہ اس کے لئے پیرا میٹرز بھی واضح ہونے چاہئیں۔
اس موقع پر انہوں نے ایڈیشنل سیکرٹری کی سطح کے سینئر افسران پر مشتمل چار کمیٹیاں تشکیل دیں جو سات روز میں ای سی ایل سمیت اجلاس میں زیر بحث لائے جانے والے امور پر اپنی سفارشات پیش کریں گی۔ بلٹ پروف گاڑیوں کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی فرد کو ایسی گاڑی خریدنے کی اجازت دینے کے لئے طریقہ کار ہونا چاہیے جبکہ وزارت کے اندر جائزہ کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی درخواستوں کی خفیہ اداروں کو بھجوائے بغیر اس کی جانچ پڑتال ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات حیران کن ہے جو لوگ بمشکل کوئی ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ بھی اس سہولت کے خواہشمند ہیں۔ ان گاڑیوں کے تیل کا خرچ ہی لاکھوں روپے میں ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ صرف وہی لوگ ایسی سہولتوں سے مستفید ہونے چاہئیں جو باقاعدہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور انہیں سیکورٹی کے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی جو بلٹ پروف گاڑیوں کو نام نہاد شہرت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی سطح پر بلٹ پروف گاڑیوں کا تمام ریکارڈ مرتب کرنے کے لئے ایک مرکزی دفتر ہونا چاہیے اور ملکیت کی تبدیلی پر ریکارڈ اپ ڈیٹ ہونا چاہیے۔
سیکورٹی کمپنیوں کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ سیکورٹی کمپنیوں کی جانب سے اپنے کلائنٹ کو مہیا کی جانے والی خدمات کے فوری جائزے کی ضرورت ہے، لائسنس ہولڈرہونے کے ناطے کسی بھی سیکورٹی کمپنی کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ایسی ورک فورس موجود ہو جن کے پاس سیکورٹی امور نمٹانے کی باقاعدہ تربیت اور مہارت ہو، دوران ڈیوٹی ان کے کسی ملازم کے زخمی یا جاں بحق ہونے کی صورت میں اس کے خاندان کی دیکھ بھال اور کمپنیوں کے ملازمین کی فلاح پر خصوصی توجہ دیئے جانے کی پالیسی لازمی ہونی چاہیے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ سیکورٹی کمپنیوں کی کمائی اور اپنے ملازمین کو دیئے جانے والے معاوضہ کا آپس میں ربط ہونا چاہیے جبکہ انہوں نے تجویز دی کہ سیکورٹی کمپنی کے ملازمین کی انشورنس بھی لازمی ہونی چاہیے۔ اسلحہ لائسنس کی فراہمی کی پالیسی کا جائزہ لیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ ہماری مخلصانہ کوشش ہے کہ ایسا سسٹم متعارف کرایا جائے جو سب کے لئے مفید ہو۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ گو کہ صوبے اسلحہ لائسنس کے اجراءکا اختیار رکھتے ہیں تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ پنجاب اور وفاق کی سطح پر اسلحہ لائسنس کے اجراءپر پابندی ہے جبکہ دیگر صوبوں میں یہ لائسنس جاری کئے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے موجودہ اسلحہ لائسنسوں کی جلد ازسر نو توثیق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کمیٹی کو ٹاسک دیا کہ وہ موجودہ اسلحہ لائسنسوں کی توثیق کے عمل کو تیز کرنے کے لئے قابل عمل تجاویز دیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے۔ انہوں نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ لائسنسوں کی تعداد پر موثر چیک رکھنے کے لئے غور کرے۔ ہتھیاروں کے ڈیلروں اور ان کے کاروبار کو باقاعدہ بنانے کے لئے بھی طریقہ کار مرتب کیا جائے۔