پاکستان کا سب سے بڑا عسکری اعزاز نشان حیدر‘ حاصل کرنے والے دوسرے سپوت میجر طفیل محمد تھے۔
میجر طفیل محمد 22جولائی 1914ء کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے ۔1943ء میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور 1947ء میں میجر کے عہدے تک پہنچ چکے تھےکہ پاکستان بن گیا اور وہ وہ اپنے پورے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے اور یہاں فوج میں خدمات انجام دینے لگے۔
جون 1958ء میں میجر طفیل محمد کی تعیناتی ایسٹ پاکستان رائفلز میں ہوئی۔ اگست 1958ء کے اوائل میں انہیں لکشمی پور کے علاقے میں ہندوستانی اسمگلرز کا کاروبار بند کرنے کا حکم ملا۔ میجر طفیل محمد نے اپنی کارروائی کے لیے ایک منصوبہ بنایا اور 7اگست 1958ء کو دشمن کی چوکی کے عقب میں پہنچ کر فقط 15 گز کے فاصلے سے حملہ آور ہوئے۔ دشمن نے بھی جوابی کارروائی کی اور مشین گن سے فائرنگ شروع کردی۔ میجر طفیل چونکہ اپنی پلاٹون کی پہلی صف میں تھے اس لیے وہ گولیوں کی پہلی ہی بوچھاڑ سے زخمی ہوگئے تاہم وہ زخمی ہونے کے باوجود آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے ایک دستی بم پھینک کر دشمن کی مشین گن کو ناکارہ بنا دیا۔ جلد ہی دشمن سے دست بدست مقابلہ شروع ہوگیا۔ یہ مقابلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک پاکستان نے دشمن کو پسپا ہوکر بھاگنے پر مجبور نہ کردیا۔ دشمن اپنے پیچھے چار لاشیں اور تین قیدی چھوڑ گیا۔
اسی رات شدید زخمی ہونے کے باعث میجر طفیل اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میجر طفیل کے اس غیر متزلزل جذبہ حب الوطنی‘ اعلیٰ درجے کے احساس فرض‘ شجاعت اور بلند ہمتی کے باعث انہیں پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیے جانے کا اعلان کیا گیا۔
5 نومبر 1959ء کو صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کراچی میں ایوان صدر میں منعقد ہونے والے ایک خاص دربار میں میجر طفیل محمد کی صاحبزادی نسیم اختر کو یہ اعزاز عطا کیا۔ میجر طفیل محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے دوسرے سپوت تھے۔