اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عدلیہ انتہائی کام کے بوجھ میں دبی ہوئی ہے اور یہ کہنے میں مبالغہ نہیں ہے کہ عدالتی سسٹم میں بے ضابطہ تاخیر کے دوہرے مسئلے کی بجائے ورک لوڈ دوسرا بڑا مسئلہ ہے مقدمات کا التواء اور ان میں تاخیر خصوصاً ضلعی سطحوں پر اب بھی موجود ہے ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالتوں میں ورک لوڈ کی وجہ سے عوام کو فوری انصاف کی متاثر ہو رہی ہے تاہم اس معاملے سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس واضح حکمت عملی نہیں ہے ۔ بعض لوگ حیرت میں بھی ہیں کیونکہ درجنوں کیس عدالت میں ڈالے جاتے ہیں کیونکہ ایک جج کے لئے صرف ایک دن ان سے نمٹنا ممکن نہیں ہوتا یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اہم کیس آتے ہیں دیگر کیسز کو دوسرے دن کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا وقت اور توانائی کے ضیاع کے علاوہ کچھ فائدہ سامنے نہیں آتا ۔
قومی جوڈیشل پالیسی زیر التواء مقدمات اور ان میں تاخیر کے مسائل کے حل کے لئے تشکیل دی گئی تاہم مسائل خصوصاً ضلعی سسٹم پر اب بھی موجود ہیں ۔ ورک لوڈ ، کیسز میں تاخیر ججز کی ناکافی تعداد اور دیگر مسائل نہ صرف مقدمہ کے فریقوں کے لئے اذیت کا باعث ہیں بلکہ اس سے عدلیہ پر ان کے اعتماد میں بھی کمی ہوئی ہے ججز اور آبادی کا تناسب ایک ملین افراد کے لئے 10 ججز ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک لاکھ افراد کے لئے صرف ایک جج ہے ایسے حالات میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی محض ایک خواب ہی رہ سکتا ہے عوام کے عدالتی نظام پر ٹھیس اس وقت پہنچی جب ملک میں فوجی عدالتیں بھی قائم کر دی گئیں ۔