بھارت کو چین کا انتباہ

163

بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا ایک اور ثبوت سامنے آگیا ہے۔ چینی تھنک ٹینک کے سربراہ نے نہایت واضح الفاظ میں بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت سے باز آجائے۔ اس کی مداخلت سے سی پیک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چینی ماہر نے جو نہایت خطرناک بات کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کے حالات خراب ہو جائیں تو بھارت پر قابو پانے کے لیے ہمیں میدان میں آنا ہوگا۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ہمیں اس کام میں امریکا اور جاپان کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیوشی شینگ نے بھارت امریکا فوجی تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ہمیں مودی کی بلوچستان کے حوالے سے تقریر پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ انہوں نے جنوبی چین میں بھی مداخلت کا حوالہ دیا ہے۔ اس ساری گفتگو میں جو زیادہ خطرناک بات ہے وہ چین کا میدان میں اترنے کا عزم ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بھارت خطے میں مداخلت کر رہا ہے یہ بھی معلوم ہے کہ بلوچستان میں اس نے شر انگیزی کی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ بھارت کی شر انگیزی اور مداخلت سے سی پیک کو نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن چین کا میدان میں کودنا خطے اور پاکستان کے لیے نہایت ہولناک ہوگا۔ پاکستان گزشتہ 36 برس سے اس خطے میں دوسرے ملکوں کی مداخلت کی وجہ سے میدان بنا ہوا ہے۔ 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی اگرچہ اس کا براہ راست ہدف پاکستان نہیں تھا لیکن فوجی اور معاشی ماہرین کی رائے یہی تھی کہ سوویت یونین کو پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنا ہے کیونکہ سردیوں میں اس کے سمندر جم جاتے ہیں اور جہاز رانی دشوار ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے افغانستان پر قبضہ کرنا ضروری تھا اس نے اس کی کوشش کی افغانوں نے جم کر مزاحمت کی۔ پاکستان نے ان کی مدد اور پشت پناہی کی اور بظاہر نا ممکن مزاحمت روس کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب ہوگئی۔ مجاہدین کی کامیابی دیکھ کر امریکا اور مغربی طاقتیں بھی کود پڑیں اور اسے روس کی پسپائی میں تبدیل کردیا۔ لیکن اس عرصے میں پاکستان بھی میدان بنا رہا او اس جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے روس کے انخلا کے ساتھ ہی امریکا نے یہاں داخل ہونے کے لیے پر تولنا شروع کیے۔ اسے بہانہ کہیں یا طے شدہ منصوبہ بہرحال 9/11 امریکا میں ہوا اور امریکا افغانستان میں داخل ہوگیا۔ خود ہی الزام لگایا خود ہی فیصلہ کیا اور خود ہی عدالت بن گیا۔ اس کام میں تقریبا پندرہ سولہ برس لگ گئے اور اس میں پاکستان براہ راست میدان اور ایندھن بنا۔ ان دونوں جنگوں میں دشمن پاکستان کے اندر نہیں تھا لیکن اب جو جنگ آنے والی ہے جس کا خدشہ چین کے تھنک ٹینک کے رہنما نے ظاہر کیا ہے اس جنگ میں جتنے بھی فریق ہیں ان سب کے کارندے بڑی تعداد میں پاکستان کے اندر موجود ہیں۔ بھارت کے ہزاروں ایجنٹ پاکستان میں ہیں۔ اگر آج کل کے معروف را کے ایجنٹوں (متحدہ) کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد بہت ہی زیادہ ہو جائے گی۔ الطاف حسین اور ان کے کارندے تو ہر ایک کے ہاتھوں بکنے کو تیار رہتے ہیں۔ امریکی ایجنٹ اور فوجی موجود ہیں۔ بھارت کے جاسوس کبھی کبھی پکڑے جاتے ہیں لیکن بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ خطہ را، موساد، افغان این ڈی ایس ، سی آئی اے، ایف بی آر، ایم آئی سکس اور نہ جانے کون کون سی خفیہ ایجنسیوں کا اعلانیہ مرکز بنا ہوا ہے۔ جس جنگ اور میدان جنگ کا حوالہ چین کے تھنک ٹینک نے دیا ہے وہ میدان پاکستان بننے جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا جس کے بہت زیادہ خدشات ہیں تو یہ بات دیوار پر لکھی ہے کہ وزیرستان سے لے کر گوادر تک اور کراچی سے لے کر خیبر تک تباہی ہوگی۔ چین نے 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی ہے اس سرمائے کو بچانے کے لیے وہ دس ارب ڈالر اور خرچ کرسکتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے اس جنگ کو ٹالنے کے لیے 46 روپے بھی خرچ کیے ہیںیا نہیں لیکن یہ سوچنا کہ چین ہی نمٹ لے گا نہایت غلط سوچ ہوگی۔ سی پیک یا اقتصادی راہ داری منصوبے سے پاکستان میں جو ترقی آنے والی تھی اس میں صرف سڑکیں، پل، بجلی اور چند کارخانے شامل ہیں یا لاکھ سوا لاکھ ملازمین۔ زیادہ فائدہ چین ہی اٹھائے گا۔ یہ وہی جنگ ہے جس کے لیے پہلے دنیا کی تین طاقتیں کوشش کرتی رہی ہیں۔ برطانیہ، امریکا اور روس نے گرم پانیوں تک پہنچنے کی منصوبہ بندی الگ الگ کی۔ الگ الگ خاص رقوم خرچ کیں لیکن تینوں کو نا کامی ہوئی۔ چین نے جنگ لڑے بغیر اس ہدف کو تقریبا حاصل کرلیا ہے لیکن جن طاقتوں کے عزائم تھے وہ اربوں ڈالر خرچ کرکے سوئے نہیں۔ ان کو سب معلوم ہے کہ کون خطے میں کیا کر رہا ہے۔ چنانچہ بھارت افغانستان ایران کا سر گرم ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے اور خطے میں بھارتی مداخلت بھی۔ اور اب تو بھارت امریکا میں دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں جن کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے فضائی اور زمینی اڈے استعمال کریں گے۔ یہ چین کے لیے دھمکی ہے۔ لیکن پاکستانی حکمرانوں کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس قسم کی جنگ یا پاکستان کو میدان جنگ بننے سے روکنے کے لیے ہماری حکومت کو بھی حرکت کرنی ہوگی۔