تبرُّج

319

ڈاکٹرحمیدہ جیلانی

سورتہ احزاب کی آیت33 میں فرمان الٰہی ہے ترجمہ اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو ، اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو۔۔۔ اس کی مختصر تفسیر القرآن کریم وقف للہ من خادم حرمین شریفین صفحہ1178 میں گھر سے نکلنے کے آداب بتلا دیے کہ ’’ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کر کے یا ایسے انداز سے جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو مت نکلو ۔ جیسے بے پردہ ہو کر سر چہرہ ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے بلکہ بغیر خوشبو لگائے سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو۔تبرج بے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں ۔ قرآن نے کہہ دیا ہے کہ تبرج جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا یہ جاہلیت ہی ہو گی ۔ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ چاہے اس کا نام کتنا ہی دلفریب اور خوشنما رکھ لیا جائے ۔ ‘‘

تفہیم القرآن جلد چہارم ابو الاعلیٰ مودودی کی تفسیر سورۂ احزاب صفحہ91 میں رقم طراز ہیں تبرج کے معنے عربی زبان میں نمایاں ہونے، ابھرنے اور کھل کر سامنے آنے کے ہیں ۔۔۔ عورت کے لیے جب لفظ تبرج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہوں گے ۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حسن لوگوں کو دکھائے ، دوسرا یہ کہ وہ لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے تیسرا یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چٹک مٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے ۔ یہی تشریح اہلِ لغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے ۔ تبرج کے معنی ’’ناز ادا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اٹھلاتے ہوئے چلنا‘‘۔ ایک اور لغت کے مطابق عورت کا اپنے ہار اور بندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا یہ کہ عورت اپنے اپنے جسم و لباس کے حسن کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو ۔ ‘‘یہ سورۂ احزاب کے کچھ حصے کی تفسیر اور ترجمہ ہے جس کا تعلق خواتین کی روز مرہ زندگی کے حوالے سے ہے کہ کس طرح عام زندگی میں پہننا ،اوڑھنا ،چلنا ،پھرنا ہے ۔ لیکن جب آپ حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہو رہے ہوں تو اور بھی زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہماری پس ماندہ علاقوں کی خواتین جس طرح اپنے گاؤ ں میں پھرتی ہیں اسی طرح حرمین شریفین میں بھی چلتی پھرتی ہیں ، جب طواف کرتی ہیں تو اکثر کو یہ علم بھی نہیں ہوتا ہے کہ طواف کا آغاز کہاں سے کیا جاتا ہے ۔ خواتین کو حج کی پرواز سے پہلے لباس کے بارے میں بتایا جائے ۔ حج کے لباس کے لیے اور بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے ہمارا پاکستانی لباس بڑی حد تک ستر پوشی میں ناکام دکھائی دیتا ہے ۔ حرمین شریفین میں پاکستان سے برقع پہن کر جائیں اور قیام کے دوران بھی ضرور پہنیں ۔ خیال رہے کہ برقع زرق برق اور جسمانی ساخت کے ساتھ چپکا ہوا نہ ہو جیسا کہ آج کل خواتین پہن رہی ہیں جب حرم شریف میں جس کسی سے بھی دریافتکیا کہ برقع نہیں پہنا تو ہر عورت نے یہی جواب دیا کہ آج ہی دھو کر ڈالا ہے ۔ اسی لیے وزارت حج و عمرہ کی طرف سے دو برقعوں کا کہا جاتا ہے ۔ جبکہ پہنتی ایک بھی نہیں ہیں۔ دو برقعوں کا فائدہ یہ ہے کہ دوسرے لباس چار سے زیادہ نہ رکھیں ۔ وہاں ہوٹلوں میں دھونے اور سکھانے کی سہولت ہوتی ہے ۔ کم سے کم وزن لے جائیں اورلائیں۔

حج کے حوالے سے خواتین کو درس ضرور دیا جائے اور خصوصاً سورۂ احزاب کی یہ آیت ترجمہ کے ساتھ ذہن نشین کرائیں ۔ پھر سنگھار بھی ہماری خواتین کے مزاج کا حصہ ہے ۔ پاکستانی خواتین کی اکثریت’’سہاگ کی نشانی‘‘ کانچ کی چوڑیاں ضرور پہنتی ہیں جس سے انہیں بھی اور دوسرے طواف کرنے والوں کوبھی خطرہ لا حق رہتا ہے ۔ دوسرے کے پاؤں اور اپنی کلائیاں لہو لہان ہو جاتی ہیں ۔ بہتر تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق چوڑیاں نہ پہنیں۔ اگر بے حد ضروری ہے تو اسٹیل ، لوہے کی پہن لیں ، سہاگ رہے نہ رہے چوڑیاں ضرور سلامت رہیں گی ۔ اور زخمی نہیں کریں گی ۔

2005ء کے طوافِ وداع کے بعد ایک عورت کا سہاگ کعبۃ اللہ کے سامنے اللہ کو پیارا ہو گیا لیکن چوڑیاں سلامت تھیں ۔
وہ خواتین جو پس ماندہ علاقوں کی نہیں ہوتی ہیں ان کو سیلفی، مووی اورفوٹو گرافی کرتے دیکھا بلکہ مرد اور خواتین طواف کرتے کرتے اچانک رُک کر کعبۃ اللہ کی طرف پشت کر کے سیلفی بنانے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ سب ہی جانتے ہیں کہ طواف میں پورا سال بھیڑ ہوتی ہے خاص طور پر رمضان اور حج کے مواقع پر ۔

ایسے میں سب بری طرح ٹکرا جاتے ہیں اور اکثر خواتین گر جاتی ہیں ۔ اگر آپ عبادت کے لیے آئے ہیں تو صرف عبادت پر توجہ دیں دنیا کی خرافات سے بچیں ۔ یہی بات پچھلے سالوں میں حج و عمرہ کرنے والے جاوید نے بتائی ۔
خواتین کو چاہیے کہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی جدو جہد نہ کریں ایک صاحب نے بے حد غصے سے بتایا کہ خواتین بال بکھرے ۔ دوپٹہ چادر سے بے نیاز۔۔۔ مردوں کو دھکا دیتے ہوئے ، حجرِ اسود کی طرف بڑھنے کی ناکام کوشش کرتی ہیں ان صاحب نے گزشتہ رمضان میں عمرہ کیا۔ خواتین کا حجر اسود تک پہنچنا نا ممکن ہے ۔ خاص طور پر رمضان اور حج کے مواقع پرخواتین کو چاہیے کہ بھیڑ کے وقت طواف نہ کریں ۔ دھکوں سے خواتین گر جاتی ہیں اکثر ہڈی بھی ٹوٹ جاتی ہے ۔ کئی خواتین کو پلاسٹر میں دیکھا گیا ہے ۔جب سے ہم نے اےئر کنڈیشنز کو اپنایا ہے اور دھوپ سے رشتہ توڑا ہے توہڈیوں کی کمزوری بڑھ گئی ہے ۔ اس لیے بھیڑ کے طواف سے بچیں ۔ اس کا بہترین وقت فجر کی اذان کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد کا ہے ۔ دھکے نہیں لگیں گے اور 40,45 منٹ میں طواف حطیم کے ساتھ ساتھ ہوجائے گا ۔ جوں جوں حطیم کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں گی تو حطیم کے اندر جانے کا موقع بھی ملنے کی امید ہے ۔ اب اندر جانے اور نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کچھ سال پہلے ، دخول اور خروج کے راستے الگ تھے ۔ جب بھی حطیم میں اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز ادا کریں تو دو رکعت پڑھ کر ہٹ جائیں ۔ تاکہ دوسروں کو بھی موقع ملے ۔

اسی طرح ریاض الجنہ میں بھی اگر نماز پڑھنے کا موقع ملتاہے تو دو رکعت پڑھ کر فوراً دوسروں کے لیے جگہ خالی کر دیں ۔ طویل سجدوں میں دعائیں مانگ کر دوسرے کے لیے مشکل نہ پیدا کریں خود آپ کے کچل جانے کا خطرہ زیادہ ہے ۔ موسمِ حج میں ریاض الجنہ میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی مشکل سے ملتی ہے۔ مسجد نبوی دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے بار بار آنے کی دعا کریں اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشے گا ۔ اور ہر بار دو رکعت نماز ادا کریں ۔
حضرت ام سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ سرکارِدو عالمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں آپ کے پیچھے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کو محبوب رکھتی ہوں ’’ارشاد فرمایا‘‘ میں بھی جانتا ہوں کہ تیری دلی تمنا یہی ہے ۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ تیرا کوٹھری کے نماز پڑھنا ، دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تیرا صحن میں نماز پڑھنا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ‘‘۔ اس ارشاد کو سن کر ام سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر کے سب سے اندرونی حصے میں نماز پڑھتی رہیں ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسجدِ نبوی میں مرد کو پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے ۔ پھر جماعت کا کتنا ، اور سرورِ کائنات کے پیچھے کتنی فضیلت در فضیلت ہے ۔ لیکن عورت کو آپ کے پیچھے پڑھنے کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھنا اس سے بھی بہتر ہے ۔ بہتری کا یہ مطلب ہو گا کہ اس کو بھی اتنا ہی ثواب عطا ہو گا ۔ ‘‘

حضرت بی بی ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے لیے بہترین مسجد ان کے گھروں کا اندرونی حصہ ہے ( مسائل اعتکاف الترغیب و ترہیب صفحہ53)

قرآن کی آیات اور روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو عام زندگی میں اپنے گھروں سے کس طرح نکلنا چاہیے وہ بھی اگر بہت ضروری ہو تو ۔ نماز جو پانچ وقت فرض ہے اس کے لیے بھی بہتر یہی کہا گیا ہے اور گھر کے اندرونی کمرے میں پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ چونکہ خواتین لاکھوں روپے خرچ کر کے سمندر پار حرمین شریفین تک پہنچتی ہے اس لیے سب کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ حرمین میں ہی نماز پڑھی جائے ۔ لیکن پہننا اوڑھنا یعنی لباس ایسا ہو جیسا کہ سورۂ احزاب میں بتایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔