فتنہ و فساد کا دور

389

سیّد محمد اشتیاق

حدیث مبارکہ ہے۔ ’’سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا؛ تمہارے بعد ایسا دور ہوگا جس میں علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنہ و فساد عام ہوگا‘ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ؛ فتنہ و فساد سے کیا مراد ہے؟فرمایا قتل۔‘‘ (ترمذی) گزشتہ کئی سال سے پورے ملک، خصوصاً کراچی میں جس طرح قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے وہ ہر حکومت اور عوام کے لیے لمحہ فکر رہا ہے۔ سدّباب کی بھی کوششیں کی گئیں اور جاری ہیں لیکن مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے نامور قوّال امجد صابری کے اندودہناک قتل نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کردیا۔پوری قوم شدّت کرب سے چلا اٹھی لیکن قاتل ابھی بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ امجد صابری کے قتل کے پس پردہ جو بھی محرّکات ہوں لیکن عام شہری سے لے کر نامور شخصیات، اہل علم و دانش کا قتل معاشرے پر بہت برے اور گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ یوں تو رینجرز 1990سے کراچی میں امن و امان کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہیں لیکن اسی دوران کئی نامور شخصیات کو دن دھاڑے موت کی نیند سلادیا گیا اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ قاتل اب تک آزاد گھوم رہے ہیں۔ حکیم سعید، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مفتی نظام الدین شامزئی، مفتی جمیل احمد خان، مولانا نذیر احمد تونسوی اور پھرمولانا سعید احمد جلالپوری وہ شہدائے کرام ہیں جن کو شہید کرنے کے بعد بھی ظالم قاتلوں کی خون کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی ہے۔ علمائے دین کا اس طرح جدا ہوجانا، امّت مسلمہ کے لیے بڑا نقصان ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر، وکیل، صحافی حضرات بھی قاتلوں کے خاص نشانے پر ہیں۔ علم دوست حضرات کے لیے اہل علم و دانش کا یوں قتل عام مایوسی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ علمائے دین اور اہل علم و دانش کا اس طرح جدا ہوجانا، علم کے اُٹھ جانے سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ قاتل لسانی اور مذہبی تعصّب کی آڑ میں قتل وغارت گری پر تُلے ہوئے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسماعیلی برادری بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہ رہ سکی۔

نیشنل ایکشن پلان کے بعد کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے تو شہریوں کو امید ہو چلی تھی کہ شاید اب امن قائم ہوجائے۔ رینجرز نے بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو پکڑا۔ ٹارگٹ کلرز کی بھی گرفتاریوں کا دعویٰ کیا گیا مبیّنہ پولیس مقابلوں میں بھی ملزمان کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن امن کراچی کے شہریوں کے لیے ابھی بھی ایک خواب ہے۔گزشتہ رمضان میں بھی امجد صابری کے قتل کے علاوہ مختلف کمیونٹی کے ڈاکٹر حضرات کو قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء کا واقعہ بھی دن دہاڑے ہوا۔ ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم، موبائل اور بائک اسنیچنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پولیس کی تو عوام اور جرائم پیشہ افراد کی نظر میں کوئی وقعت، خود اُن کے کرتوتوں کی جہ سے نہیں رہی۔ گزشتہ دنوں بھی سپر مارکیٹ لیاقت آباد کا پولیس اہلکار نادر علی اسلحے اور نقد رقم کے ساتھ پکڑا گیا جو ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث تھا۔ ان حالات میں عوام کی امید کی نظریں رینجرز پر ہی جاکر ٹھیرتی ہیں لیکن حالیہ واقعات کے بعد عوام رینجرز کی کارکردگی پر آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ خصوصی اختیارات کی موجودگی میں ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کااس طرح بلا خوف و خطر اپنی کارروائیاں جاری رکھنا رینجرز کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد ابھی بھی مکمل طور پر منظم ہیں۔ ریاست کے پاس تمام وسائل اور افرادی قوت دستیاب ہوتی ہے اگر نیک نیتی کے ساتھ مصمّم ارادہ کرلیا جائے تو ان جرائم پیشہ عناصر کاخاتمہ یقینی ہے۔ اسی طرح جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں اور شہر میں امن و امان قائم کریں، وہیں عوام کی بھی ذمے داری ہے کہ اپنے گرد و پیش پر نظر رکھیں اور کہیں بھی کوئی مشکوک سرگرمی نظر آئے اس کی اطلاع فوراً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے کرذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیں تاکہ جرائم پر قابو پانے میں پولیس اور رینجرز کو سہولت ہو اور عام آدمی سے لے کر علمائے دین اور اہل علم و دانش کے قتل کی روک تھام ہو سکے جیسا کہ حدیث مبارک کے مطابق علم کا اُٹھ جانا اور قتل فتنہ و فساد کی علامت ہے۔