سیّد محمد اشتیاق
نیشنل ایکشن پلان کے بعد کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دیے گئے تو شہریوں کو امید ہو چلی تھی کہ شاید اب امن قائم ہوجائے۔ رینجرز نے بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو پکڑا۔ ٹارگٹ کلرز کی بھی گرفتاریوں کا دعویٰ کیا گیا مبیّنہ پولیس مقابلوں میں بھی ملزمان کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن امن کراچی کے شہریوں کے لیے ابھی بھی ایک خواب ہے۔گزشتہ رمضان میں بھی امجد صابری کے قتل کے علاوہ مختلف کمیونٹی کے ڈاکٹر حضرات کو قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء کا واقعہ بھی دن دہاڑے ہوا۔ ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم، موبائل اور بائک اسنیچنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پولیس کی تو عوام اور جرائم پیشہ افراد کی نظر میں کوئی وقعت، خود اُن کے کرتوتوں کی جہ سے نہیں رہی۔ گزشتہ دنوں بھی سپر مارکیٹ لیاقت آباد کا پولیس اہلکار نادر علی اسلحے اور نقد رقم کے ساتھ پکڑا گیا جو ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث تھا۔ ان حالات میں عوام کی امید کی نظریں رینجرز پر ہی جاکر ٹھیرتی ہیں لیکن حالیہ واقعات کے بعد عوام رینجرز کی کارکردگی پر آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ خصوصی اختیارات کی موجودگی میں ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کااس طرح بلا خوف و خطر اپنی کارروائیاں جاری رکھنا رینجرز کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد ابھی بھی مکمل طور پر منظم ہیں۔ ریاست کے پاس تمام وسائل اور افرادی قوت دستیاب ہوتی ہے اگر نیک نیتی کے ساتھ مصمّم ارادہ کرلیا جائے تو ان جرائم پیشہ عناصر کاخاتمہ یقینی ہے۔ اسی طرح جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں اور شہر میں امن و امان قائم کریں، وہیں عوام کی بھی ذمے داری ہے کہ اپنے گرد و پیش پر نظر رکھیں اور کہیں بھی کوئی مشکوک سرگرمی نظر آئے اس کی اطلاع فوراً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے کرذمے دار شہری ہونے کا ثبوت دیں تاکہ جرائم پر قابو پانے میں پولیس اور رینجرز کو سہولت ہو اور عام آدمی سے لے کر علمائے دین اور اہل علم و دانش کے قتل کی روک تھام ہو سکے جیسا کہ حدیث مبارک کے مطابق علم کا اُٹھ جانا اور قتل فتنہ و فساد کی علامت ہے۔