ڈی جی رینجرز اب کاروائی کریں

154

ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے انکشاف کیا ہے کہ الطاف کی تقریر میڈیا پر حملے اور ساری توڑ پھوڑ منظم کارروائی تھی۔ واقعے کے روز مختلف سیکٹرز اور یونٹس کے لوگ علاقے میں پہلے سے موجود تھے۔ لیبر ڈویژن نے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ 2 بینکوں کے افسران نے انہیں چھپا کر رکھا۔ ایک پکڑا گیا ہے۔ میجر جنرل بلال اکبر نے کہا ہے کہ ہمیں سب معلوم ہوگیا ہے۔ ڈنڈے اور برچھیاں کون لایا کس نے تقسیم کیں۔ اسلحہ کس کے پاس تھا۔ گولیاں کس نے چلائیں۔ ڈی جی رینجرز کو کامیاب کارروائی پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔ اور اب اہل کراچی کو قوی امید ہے کہ ڈی جی صاحب اتنی ساری باتیں معلوم ہونے کے بعد فوری کارروائی کریں گے کیونکہ اب معلوم کرنے کو کچھ نہیں بچا۔ جے آئی ٹی ضرور بنائیں لیکن رفتار تیز کریں۔ اگرچہ ڈی جی صاحب تک یہ معلومات پہنچنے سے قبل کراچی کے بچے بچے کو یہ معلوم تھا کہ متحدہ نے یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں کیا ہے۔ متحدہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ غیر منظم کارروائی کرے گی اس کے کردار اور طریقہ کار سے لا علمی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ عاشورہ کے جلوس کے موقع پر آتشگیر مادہ لے کر آنا، دھماکا ہوتے ہی لوٹ مار شروع کرنا۔ ایک ہی جانب کی دکانوں کو نقصان پہنچانا۔ 12 مئی کو شہر کے تمام اہم چوراہوں اور راستوں کو بند کرنا، کہاں کہاں سے فائرنگ کرنا ہے یہ سب معلوم رکھنا اور وہاں اپنے بندے بٹھانا، پھر میڈیا کو کنٹرول کرنا۔ میڈیا سے متحدہ کی مظلومیت کا پرچار کرنا یہ سب کچھ منظم منصوبے کے تحت تھا۔ بہرحال اپنے انکشافات کے بعد تو کارروائی کا انتظار ہی ہونا چاہیے۔ آج کل تو حکومت متحدہ کے دہشت گردوں کو رہا کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے تو کہا ہے کہ میرے حکم پر متحدہ کے دفاتر گرائے جارہے ہیں گویا سابق ڈی جی رینجرز کی یہ شکایت بھی دور ہوگئی کہ ہم مجرم پکڑ پکڑ کر دیتے ہیں حکومت انہیں رہا کردیتی ہے۔ اب تو حکومت سندھ اور رینجرز ایک پیج پر ہیں۔ آپریشن کی طوالت سیاسی مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔ اس کا خیال رکھنا ہوگا۔ لیکن اس سوال کا کوئی جواب اب تک نہیں ملا کہ کیا متحدہ نے یہ سب کچھ پہلی بار کیا ہے۔ کیا اس سے پہلے ٹی وی چینل آج پر حملہ نہیں ہوچکا جس کی فوٹیج موجود ہیں۔ اسی طرح زمینوں اور پارکوں پر قبضے کرکے ایم کیو ایم کے دفاتر اور یونٹ قائم کرنا کیا دو، چار مہینوں کی بات ہے۔ یہ تو برسوں سے ہوتا آیا ہے۔ اس وقت سندھ کی حکومت اور سابق وزیر اعلیٰ کہاں سوئے پڑے تھے۔ سب پر ایک خوف طاری تھا۔ اب کسی وجہ سے آنکھ کھل گئی ہے تو مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ متحدہ کے دفاتر وہ گروا رہے ہیں۔