الطاف جامن، کمال قلاقند، فاروق ستار برفی

322

مظفر اعجاز

صرف ایک رات میں سب کچھ پلٹ کر رہ گیا۔ لوگ متحدہ کو دہشت گرد تسلیم کر چکے تھے۔ اس کے مرکز سے قاتل، مجرم، را کے ایجنٹ، اسلحہ سب ہی کچھ نکلا تھا روز روز اعترافات سامنے آرہے تھے کوئی سو قتل کا اعتراف کر رہا تھا، کوئی 50 کا۔۔۔ کسی نے بڑے بڑے لیڈروں کے قتل کا اعتراف کرلیا تھا۔ کراچی سے لندن تک ایک زنجیر تھی جو جرائم اور مجرموں کی سر پرستی پر مامور تھی لیکن کمال ہے ایک رات میں چند جملوں نے ظالموں کو مظلوم بنا دیا۔ مجرموں کو محروم بنا دیا۔ قاتلوں کو قابل رحم بنا دیا۔ سارے جرائم دھل گئے ساری برائیاں ختم ہوگئیں۔ صرف چند جملے۔۔۔ پاکستان کو برا کہا۔ جرنیلوں کو برا کہا اور امریکا و بھارت سے اسرائیل سے مدد مانگ لی اس کے بعد لا تعلقی کا اعلان اور ایسے ہی بہت سارے اعلانات نے پاکستان کے نظام انصاف پر ایک اور طمانچہ رسید کیا ہے۔ پرانا لطیفہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ ایک آدمی مٹھائی کی دکان میں جا کر ایک کلو گلاب جامن مانگتا ہے، جب وہ تل جاتی ہے تو کہتا ہے کہ اس کی جگہ کلو برفی دے دو اور پھر اس کے تل جانے کے بعد کہتا ہے کہ نہیں نہیں مجھے قلا قند دے دو اور یہ لے کر دکان سے جانے لگتا ے تو دکاندار پیسے مانگتا ہے وہ کہتا ہے پیسے کس چیز کے جواب میں دکاندار کہتا ہے قلا قند کے مگر وہ تو میں نے برفی کے بدلے لی ہے۔ اوہو اچھا تو برفی کے۔۔۔ مگر وہ تو میں نے گلاب جامن کے بدلے لی ہے اس پر دکاندار غصے میں آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ ارے تو گلاب جامن کے پیسے دو۔ وہ جواب دیتا ہے کہ گلاب جامن تو میں نے لی ہی نہیں۔ کاہے کے پیسے خوامخواہ جھگڑا کرتا ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ بنی، اس کے بعد اس میں سے آفاق نکلے اور مہاجر قومی موومنٹ انہوں نے بنالی۔ پھر 20برس بعد اس متحدہ میں سے مصطفی کمال نکلے اور پاک سرزمین پارٹی بنالی۔ عامر خان بھی آفاق احمد کے ساتھ نکلے تھے وہ ان سے الگ ہوگئے، تینوں پاک صاف ہوگئے تو فاروق ستار نے بھی علیحدگی اور لا تعلقی کا اعلان کردیا۔ وہ بھی پاک صاف ہوگئے۔ اب آفاق گروپ مظلوم، مصطفی کمال گروپ مظلوم، فاروق ستار گروپ مظلوم۔ الطاف حسین کا کوئی گروپ ہے تو فی الحال وہی ظالم ہے۔ اب آپ تلاش کیجیے! کراچی کے 35 یا 40 ہزار لوگوں کے قاتلوں کو۔۔۔ کون برفی ہے، کون گلاب جامن اور کون قلاقند۔۔۔ جس کو پکڑیں وہ یہی کہے گا کہ گلاب جامن تو میں نے لی ہی نہیں۔ آج کل الطاف حسین گلاب جامن بن گئے ہیں کوئی قلا قند اور کوئی برقی بنا ہوا ہے۔

اس فارمولے پر تو پاکستان بھر کی جیلیں خالی ہوسکتی ہیں بڑے سے بڑا مجرم ٹی وی پر آکر بتائے گا کہ میں نے فلاں فلاں ڈان سے لا تعلقی کا اعلان کردیا ہے لہٰذا میں آج سے پاک صاف ۔۔۔ اسی طرح اگر لیاری گینگ وار کے عزیر بلوچ بھی پریس کانفرنس کرکے ذوالفقار مرزا، آصف زرداری اور پیپلز پارٹی سے لا تعلقی کا اعلان کردیں۔ یہ مواقع تو طالبان سے لے کر لشکروں اور گوانتاناموبے تک موجود ہیں سب کے لیے آزادی ہے ایک پریس کانفرنس کریں اور پاک صاف ہوں جائیں۔ سوال یہ ہے کہ کون سی چیز ہے جس نے کراچی کو آگ و خون میں نہلا دیا کس چیز نے کھربوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا۔ کیا یہ صرف سیاسی معاملہ ہے؟ اتنا آسان تو نہ سمجھا جائے اسے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کرتے رہے اور اب کیا کر رہے ہیں۔ صرف اعترافات، انکشافات اور جے آئی ٹی کی تشکیل۔۔۔

آج کل کراچی کے گلی محلوں میں متحدہ کی مظلومی کی جو داستانیں زبان گرد عام ہیں اس کی اصل وجہ ٹی وی پر دکھائی جانے والی تصاویر ہیں جن میں متحدہ کے دفاتر گرائے جارہے ہیں۔ متحدہ کے کارکن آنکھوں پر پٹیوں کے ساتھ عدالت میں پیش کیے جارہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فاروق ستار نے پریس کانفرنس کرکے کہا کہ ظلم کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یعنی 22 اگست تک جو لوگ ظالم ثابت ہوچکے تھے الطاف حسین کی ایک تقریر کے چند جملوں اور دو ٹی وی چینلوں پر حملوں کے بعد بھی مظلوم رہے یہی لوگ جنگ کے بنڈل کے بنڈل جلا کر بھی مظلوم رہے اور اخبارات کے دفاتر بند کروا کر چابیاں قائد تحریک کی جیب میں رکھوا کر مظلوم تھے لیکن دو ٹی وی چینلوں پر حملہ ایسی کیا خطا تھی کہ تمام فورسز حرکت میں آگئیں۔ کہا جارہا ہے کہ متحدہ کے قائد کی تقریر اور حملے منصوبہ بند تھے۔ ظاہر ہے یہ سارے کام منصوبے کے تحت ہی ہونے تھے اور ہوئے بھی منصوبے کے تحت ہیں یہ کوئی انکشاف نہیں بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ تقریر، حملے، کریک ڈاؤن گرفتاریاں، لا تعلقی 90 سیل کرنا 30 سال سے دہشت گردی کرنے والوں کو پاک صاف کرنا یہ سب ایک ہی منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ ابھی نہیں معلوم کہ منصوبہ کس نے بنایا اور ڈوریں کون ہلا رہا ہے لیکن یہ سارا کھیل ہے منصوبہ بند اب لوگ تلاش کریں برفی کون ہے، قلاقند کون اور گلاب جامن کون۔۔۔ ان کے قاتل نہیں ملیں گے۔