محمد انور
حافظ نعیم الرحمان کی جانب سے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو جماعت میں شمولیت کی یہ دعوت یقیناًایک تاریخی اور اصلاح معاشرہ کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جماعت اسلامی کی بڑی وجہ شہرت ایمان دار اور انسانی خدمت کے جذبہ سے سرشار رہنماء اور کارکنان ہیں۔ جماعت اسلامی کا ذیلی ادارہ الخدمت فاؤ نڈیشن ہے۔ اس سے وابستہ لوگ عملاً سیاسی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں وہ سیاست کے بجائے انسانیت کی خدمت کی ذمے داریاں ادا کرتے ہیں۔ جب کہ جماعت اسلامی سیاست بطور عبادت کرتی ہے۔ لوگوں کو یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان ملک کی سب بڑی اور پرانی اسلامی تحریک ہے۔ جماعت اسلامی کا آغاز بحیثیت تحریک
بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودی نے عصر حاضر میں اسلامی نظام کے احیا کے لیے کیا تھا۔ جماعت کی سیاست کا مقصد نوجوانوں کی دین کے مطابق تربیت کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ فعال ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام 23دسمبر 1947 کو عمل میں لایا گیا تھا۔ ملک کے قیام کے صرف پانچ ماہ بعد طلبہ تنظیم کی تشکیل اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت کے رہنماؤں کو نئے وطن کے طالب علموں کی غیر معمولی فکر تھی۔
الطاف حسین کی جذباتی اور متعصبانہ تقاریر نے دین سے دور اور پریشان حال نوجوانوں کو اپنے قریب کیا۔ اس دوران جمعیت سے تعلق رکھنے والے بعض نوجوان بھی الطاف کی آواز کے دھوکے میں آکر جمعیت چھوڑ گئے۔ تاہم یہ جمعیت کی تربیت ہی تھی کہ انہیں بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اس سے دور ہوگئے۔ آج ایم کیو ایم اور اس کے کارکن معاشرے میں مشکوک کردار کے حامل کہلانے لگے ہیں جس کی وجہ قیادت پر اندھا اعتماد اور اس کی وفاداری کا حلف ہے۔ چوں کہ ایم کیو ایم یا اس کی طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او میں شامل ہونے والوں کو ابتدائی طور پر ہی دین سے دور کرکے دیگر معاملات میں مصروف کردیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کارکنوں کو حلف یا قسم کی شرعی حیثیت کا علم ہی نہیں ہوتا جب کہ وہ اس بارے میں کسی سے فتویٰ حاصل کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکن الطاف سے وفاداری کے حلف کے بارے میں کسی سے رائے لیتے ہوئے بھی اس لیے ڈرتے ہیں کہ کہیں لوگ ان کا مذاق نہ اڑائیں۔ جب کہ دوسری طرف ہمارے علماء نے بھی ایسے نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح کی طرف توجہ نہیں دی۔
سیاسی کارکنوں کو جماعت اسلامی کی جانب سے دی جانے والی شمولیت اس لحاظ سے ان کی زندگی بدل سکتی ہے کہ وہ نہ صرف دین کے قریب چلے جائیں گے بلکہ دینی لحاظ سے ایک اچھے سوشل ورکر بھی بن سکیں گے۔ یہ بات شاید عام لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جماعت اسلامی نہ صر ف اپنے کارکنوں بلکہ عام افراد کو روزگار دلانے کے لیے بھی ہمیشہ ہی فعال رہتی ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کا ’’شعبہ روزگار‘‘ بیروزگاروں نوجوانوں کو ان کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت کے مطابق مختلف اداروں میں کھپانے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ یہ بیورو ہر دلعزیز عنایت اللہ اسمٰعیل کی نگرانی میں خدمات انجام دے رہاہے۔ اس گروپ کی کاوشوں سے تقریباً چھ ہزار افراد کو مختلف اداروں میں روزگار دلایا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ میں متعدد افراد پڑھے لکھے اور باصلاحیت ہے۔ لیکن ان کی صلاحیتوں سے مثبت فائدہ نہیں اٹھایا گیا نتیجے میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے مشہور ہونے کے بجائے اس کے حصے میں بدنامی زیادہ آئی۔ جب کہ دوسری طرف متحدہ سے علیحدگی کے خواہش مند خوف کی وجہ سے کنارہ کشی بھی اختیار نہیں کرسکے۔ تاہم الحمد للہ اب یہ صورت حال نہیں رہی۔ اب متحدہ کے کارکن کھل کراس سے بغاوت کررہے ہیں اور دیگر جماعتوں کی طرف جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی نام ور شخصیات متحدہ کے ان کارکنوں سے ہمیشہ ہی ہمدردی رکھتے تھے جو اس میں سیاست اور انسانیت کے جذبے کے تحت شامل ہوگئے تھے۔ ان کی شمولیت کا اصل مقصد کراچی کے لوگوں یا مہاجروں کو حقوق دلانا تھا تاہم ان کے ساتھ جو کچھ متحدہ کی قیادت نے کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے شمولیت کی دعوت ایسے نوجوانوں کے لیے بہت اچھا موقع بھی ہے جو متحدہ اور دیگر جماعتوں کی تنگ نظری کی سیاست سے تنگ آگئے ہیں اور اب شرعی لحاظ سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔