مقبوضہ کشمیر: احتجاجی مظاہروں میں تیزی قابض فوج کے تشدد سے 100 زخمی

140
سری نگر/مظفر آباد/واشنگٹن (خبر ایجنسیاں ) مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے جاری قتل عام اور املاک کی تباہی کیخلاف منگل کو مسلسل 53ویں روز بھی احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رہا، بھارتی فوج کے وحشیانہ تشدد سے 100سے زائد مظاہرین زخمی ہوگئے ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مظاہروں کی اپیل مشترکہ حریت قیادت نے مشترکہ طورپر دی تھی ۔ضلع شوپیاں کے علاقے وانتو میں بھارتی فورسز کی جانب سے ریلی کے مقام پر چھاپے کے باوجودہزاروں لوگوں نے بھارت مخالف مظاہرہ کیا۔

ریلی کے شرکا نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’نہ ترقی ، نہ نوکری صرف بھارت سے آزادی اور ہم کیا چاہتے آزادی ہیں‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔ نوجوانوں نے پاکستانی جھنڈے بھی اٹھارکھے تھے۔ سری نگر ، اسلام آباد، بارہمولہ ،بانڈی پورہ اور کولگام کے اضلا ع میں بھارتی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے ریلیوں کے شرکا پر طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 100 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیشتر زخمی پیلٹ لگنے سے متاثر تھے۔ دوسری جانب امریکا میں مقیم سیکڑوں کشمیریوں نے اٹلانٹا اور شکاگو میں مقبوضہ کشمیرمیں شہریوں کے قتل عام اور انسانی حقو ق کی پامالیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے امریکی قانون سازوں پر زوردیا کہ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ مل کرکشمیرمیں جاری بھارتی مظالم کی مذمت کریں۔ متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے مظفر آباد میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کشمیر یوں کے قتل عام پر عالمی برادری کی خاموشی پر اظہارتشویش کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی توڑنے کے لیے جارحانہ سفارتی مہم جوئی سے کام لے کربھارت کو کشمیریوں کے قتل عام سے رُکوائے۔

پاکستان بھارت کے ساتھ جملہ سفارتی و اقتصادی تعلقات منقطع کر دے۔او آئی سی کے رکن ممالک کو بھی اس کے لیے تیار کرے، حکومت پاکستان میدان کارزار کی ضرورتوں کے مطابق کشمیریوں کی ٹھوس مدد کرکے اپنی آئینی و اخلاقی ذمے داری نبھانے کی سنجیدہ کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے حصول اور آخری فوجی کے انخلا تک رواں جدوجہد کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔بھارتی ایجنسیاں اور زرخرید ایجنٹ مزاحمتی تحریک کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے اور مشترکہ لائحہ عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ متحدہ قیادت پر اعتماد اور مشترکہ لائحہ عمل ناگزیر ہے ۔