انقرہ (انٹرنیشنل ڈیسک) ترکی میں گزشتہ 93 برس سے جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال اتا ترک کا وضع کردہ سیکولر دستور نافذ العمل ہے، مگر پچھلے ڈیڑھ عشرے سے برسراقتدار اسلام پسند انصاف وترقی پارٹی’آق‘ نے سیکولر دستور پر کئی کامیاب ضربیں لگائی ہیں جس کے نتیجے میں عشروں بعد ترک پارلیمان میں باحجاب خواتین ارکان دکھائی دینے لگیں ہیں۔ اگلے مرحلے میں حال ہی میں ترکی کی حکومت نے خواتین پولیس کے حجاب اوڑھنے پرعائد پابندی ختم کر دی اور ترک پولیس بھی حجاب پہننے لگی ہے۔ منگل کے روز ترکی کے شہر استنبول کے تقسیم اسکوائر میں مسلح افواج کی فتوحات کے 94 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے منعقد ایک تقریب میں پہلی بار ایک خاتون پولیس اہلکار کو سر پر حجاب اوڑھے دیکھا گیا۔ 1923ء کے بعد ترک خاتون پولیس اہلکار پر دوران ڈیوٹی حجاب اوڑھنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ترکی کے سرکاری اور نجی ذرائع ابلاغ نے حجاب اوڑھنے والی پولیس اہلکار کے اقدام کا خوب تذکرہ کیا ہے۔ خاتون پولیس اہلکارکے یونیفارم سے واضح پتا لگتا ہے کہ وہ پولیس میں افسر ہے۔ استنبول تقسیم اسکوائر پر منعقد سرکاری تقریب میں شریک باحجاب خاتون پولیس اہلکار کی ایک فوٹیج یوٹیوب پربھی نشر کی گئی ہے، جب کہ ترک خبر رساں ایجنسی اناطولیہ اور اخبار’حریت‘ کے انگریزی ایڈیشن میں بھی اس پولیس اہلکار کے حجاب اوڑھنے کو کوریج دی گئی ہے۔ اس سے قبل صدر رجب طیب ایردوان کے سیکورٹی عملے میں شامل ایک خاتون پولیس اہلکار کو بھی حجاب میں دیکھا گیا تھا۔ اخبار ترک گزیٹ نے 27 اگست کو جاری ہونے والے اس حکومتی فیصلے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس میں حکومت نے خواتین پولیس اہلکاروں پر حجاب اوڑھنے پرعائد پابندی اٹھالی تھی۔ حال ہی میں ترکی کی حکمراں جماعت آق نے خواتین پولیس اہلکاروں کو حجاب کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پرحکومت کی طرف سے یہ فیصلہ صادر کیا گیا کہ خواتین کسی مخصوص رنگ، نعرے یا سلوگن سے صاف یونیفارم کے ہم رنگ کپڑے کا حجاب اوڑھ سکتی ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی میں حجاب پرپابندی مرحلہ وار اٹھائی جا رہی ہے۔ 1923ء سے عائد حجاب پر پابندی کے خلاف پہلا فیصلہ 2010ء میں صادر ہوا تھا جس کے بعد جامعات کی طالبات کو مرضی کے مطابق حجاب اوڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ 2013ء میں سرکاری اداروں کی خواتین کی حجاب پرپابندی ختم کی گئی اور 2014ء میں مڈل اسکولوں میں بچیوں کو حجاب کی اجازت دی گئی۔
ترکی/ حجاب