نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی حکام نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ رواں برس مون سون کی بارشوں سے دریائے گنگا میں آنے والے سیلاب نے ماضی کے سبھی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ حکام کے مطابق شمالی بھارت میں 4 مقامات پر پانی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ سب سے زیادہ سیلابی صورتحال ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ہے جہاں 26 اگست کو پانی کی سطح 50.52 میٹر تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں 1994ء میں سیلاب سے پانی کی سطح50.27 میٹر تک ریکارڈ کی گئی تھی۔ رواں برس بھارت میں سیلاب سے اب تک 150 سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ بھارت کے سنٹرل واٹر کمیشن کے اہلکار جی ایس جھا کا کہنا ہے کہ اس سال ریاست بہار کے علاقوں ہاتھی داہ اور بگل پور میں اور ریاست اتر پردیش کے علاقے بالیا میں سیلابی پانی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بہار اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست ہے جہاں 150 لوگ ہلاک ہوئے اور 5 لاکھ کے قریب لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ ہمسایہ ریاست اتر پردیش کے علاقے بھی دریائے گنگا میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا کا تیسرا بڑا یہ دریا بھارت کی شمالی ریاستوں سے گزرتا ہوا خلیجِ بنگال میں جا گرتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق جون میں مون سون کے آغاز کے بعد ہونے والی مسلسل بارش کے مقابلے میں گزشتہ ہفتے ان ریاستوں میں بارش کم یا اوسط درجہ کی ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریا کے ساتھ بہہ کر آنے والی مٹی سیلاب کی وجہ ہے۔ دریائے گنگا سب سے زیادہ مٹی اور کنکر ساتھ لاتا ہے۔ یہ مٹی اور کنکر دریا کے نیچے سطح زمین کو بلند کر دیتے ہیں اور پانی کناروں سے نکل کر آبادیوں اور کھیتوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ بہار میں حکام نے مطالبہ کیا ہے کہ مغربی ریاست بنگال میں ایک مصنوعی باڑ لگائی جائے تاکہ مٹی اور کنکروں کے آگے آنے کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مٹی کی جگہ بدلنے کی وجہ سے فارکّا بیراج میں بھی کئی مقامات پر خلل پڑا ہے اور ان کے بقول اسی وجہ سے گنگا کا پانی واپس بہار کی جانب بہا اور سیلاب کا باعث بنا۔