13160یپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر کی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سان سوچی نے باغیوں کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ جس کے بعد یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ ایک طویل عرصے سے جاری باغی مسلح کارروائیاں اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گی۔ گزشتہ روز بات چیت کے آغاز کے موقع پر حکومت، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، فوج اور مسلح باغیوں کے 1700 مندوبین سے خطاب میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ آج ایک ایسا سفر شروع ہو رہا ہے، جس کا آغاز کئی دہائیوں قبل ہو جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات کے مثبت نتائج کا انتظار صرف میانمر ہی کو نہیں دنیا بھر کو ہو گا۔ واضح رہے کہ میانمر میں گزشتہ برس نومبر میں 25 برس کے بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جس میں حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے پارلیامن میں سادہ اکثریت حاصل کی تھی اور حکمران جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی انتخابی مہم میں مسلمانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ نوبل انعام یافتہ رہنما مسلمانوں پر برسوں سے جاری مظالم کے خاتمے اور ان کے حقوق دلانے کے لیے اقدامات کریں گی تاہم ملک میں حکومت بنانے کے بعد میانمر کے راکھائن مسلمان تاحال اپنے حقوق کی خاطر حکومتی اقدامات کے منتظر ہیں۔ میانمر میں گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں تقریبا 13 لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا گیا تھا۔ روہنگیا میں مسلمان اقلیت کے حقوق کی پامالی اور ان پر مظالم کئی عشروں سے جاری ہیں۔ بدھ مت کے اکثریتی آبادی والے ملک میں مسلمان آبادی پر بدھ مت دہشت گردوں اور مقامی حکومت کے وحشیانہ مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
میانمر / مذاکرات