روضۂ رسول ﷺ کے سامنے

193

بارگاہِ اقدس میں قصد ہے اور کہاں حاضری کا قصد ہے؟ وہاں کا جہاں کی تمنا اور آرزو نے بزمِ تصور کو سدا آباد رکھا ہے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہیں۔ جسم کے روئیں روئیں سے مسرت کی خوشبو سی نکل رہی ہے۔ خوشی کے ساتھ ساتھ دل پر ایک دوسرا عالم بھی طاری ہے۔ یہ چہرہ جس پر گناہوں کی سیاہی پھری ہوئی ہے کیا حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مواجہ شریف میں لے جانے کے قابل ہے۔ اے آلودہ گناہ! اے غفلت شعار! ان کے حضور جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد پاکی، تقدیس، عصمت اور عظمت بس اْنھی کو سزاوار ہے۔ کس منہ سے روضۂ اقدس کے سامنے السلام علیک یارسول اللہ کہے گا۔ اس زبان نے (یہاں آنے سے پہلے اپنے ملک میں) کیسی کیسی فحش باتیں بکی ہیں۔ ان لبوں کو کتنی بْری بْری باتوں کے لیے جنبش ہوئی ہے۔ ان آنکھوں نے کیسی کیسی قانون شکنیاں کی ہیں۔ اے نافرمان غلام! اپنے آقا کے دربار میں جانے کی جرأت کس برتے پر کر رہا ہے۔ اْن کی اطاعت سے کس کس طرح سے گریز کیا ہے۔ اْن کے حکم کو کس کس عنوان سے توڑا ہے۔ ان کے اْسوۂ حسنہ سے تیری زندگی کو کوئی دْور کی بھی نسبت نہیں رہی ہے۔
اے رْوسیاہ! تیرے بْرے اعمال حضور کی روحِ مقدس کو اذیت ہی پہنچاتے رہے ہیں۔ یہ تو پاکوں اور نیکوں کی سرزمین ہے۔ یہاں تجھ جیسے گندے آدمی کا کیا کام؟ مگر شرم و ندامت کے اس احساس کے ساتھ معاً یہ خیال بھی آیا کہ میرے آقا رحمۃ للعالمین اور شفیع المذنبین بھی تو ہیں۔ گناہ گاروں اور سیاہ کاروں کی جاے پناہ اور ہے کہاں؟ ان سے شفاعت نہ چاہیں تو اور کس سے چاہیں؟
اسی عالمِ خیال و تصور میں ’باب السلام‘ سے داخل ہوئے اور مسجد نبوی میں جاپہنچے۔ (جس کی) ایک ایک چیز آنکھوں میں کھْبی جارہی ہے اور اس ظاہری چمک دمک سے بڑھ کر جمال و رحمت کی فراوانی جیسے مسجد نبوی کے دَرودیوار سے رحمت کی خنک شعاعیں نکل رہی ہیں!
تجلیوں کا وہ ہجوم کہ آنکھیں جلوے سمیٹتے سمیٹتے تھکی جارہی ہیں۔ یہاں کے انوار کا کیا پوچھنا۔۔۔ روشنی ہی روشنی اور نور ہی نور، مگر لطف یہ کہ آنکھیں خیرہ نہیں ہوتیں۔ یہ آنکھوں کا نہیں خود یہاں کی تجلیوں کا کمال ہے۔ صوفیا کا قول ہے کہ ’’تجلّی میں تکرار نہیں‘‘ مگر اس مسئلے پر غور کرنے کی یہاں فرصت کسے ہے!
جب ہم مسجد نبوی میں حاضر ہوئے ہیں تو ظہر کی نماز تیار تھی۔ کہاں مسجد نبوی اور سجدہ گاہ مصطفوی میں! پیشانی کی اس سے بڑھ کر معراج اور کیا ہوگی!
نماز کے بعد اب روضہ اقدس کی طرف چلے۔ حاضری کی بے اندازہ مسرت کے ساتھ اپنی تہی دامنی اور بے مایگی کا احساس بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ درود کے لیے آواز بلند ہوتے ہوتے بھنچ بھی جاتی ہے۔ قدم کبھی تیز اْٹھتے ہیں اور کبھی آہستہ ہوجاتے ہیں۔ مواجہ شریف حاضر ہونے سے پہلے قمیص کے گریبان کے بٹن ٹھیک کیے، ٹوپی کو سنبھالا اور پھر؂
وہ سامنے ہیں، نظامِ حواس برہم ہے
نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے
زائرین بلند آواز سے درود و سلام عرض کر رہے ہیں اور کتنے تو جالی مبارک کے بالکل قریب جاپہنچے ہیں مگر اس کمینہ غلام کے شوق بے پناہ کی یہ مجال کہاں؟ چند گز دور ہی ستون کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ باندھے ہوئے مگر نماز کی ہیئت سے مختلف! آہستہ آہستہ صلوٰۃ و سلام عرض کر رہا ہوں کہ حضور کی محفل کے آداب کا یہی تقاضا ہے، اور یہ آداب خود قرآن نے سکھائے ہیں۔
الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاحبیب اللہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یاخیر خلق اللہ ، الصلٰوۃ والسلام علیک یارحمۃ للعالمین
زبان سے یہ لفظ نکلے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔۔۔!
صلوٰۃ و سلام عرض کر رہا ہوں مگر آواز گلوگیر ہوتی جارہی ہے اور الحمدللہ کہ آنکھیں برس رہی ہیں۔ ندامت، مسرت اور عقیدت کے ملے جلے آنسو! نگاہیں روضہ مبارک کی جالیوں کو چوم رہی ہیں اور دل آنکھوں کو مبارک باد دے رہا ہے، زبانِ حال سے! آنکھوں کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے! (کاروانِ حجاز، ماہنامہ فاران، کراچی1965ء)
انتخاب: پروفیسر ظفر حجازی